جمعہ , جنوری 10 2025
تازہ ترین
Gas

نگران حکومت نے صنعتی گیس کے نرخوں میں سب سے زیادہ 191 فیصد اضافہ کیا

کراچی: چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر افتخار احمد شیخ نے کہا ہے کہ عبوری حکومت صنعتی گیس کے نرخوں میں اضافے کے معاملے میں منتخب حکومتوں سے آگے نکل گئی ہے کیونکہ گیس اگست 2023 سے اب تک 118 فیصد بڑھ کر 1100 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے 2400 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہوچکی ہے جبکہ آر ایل این جی کو شامل کرنے کے بعد مزید 40 فیصد اضافے نے گیس ٹیرف کو 3200 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کی تاریخی اور بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے جو مجموعی طور پر 191فیصد گیس اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔


ایک بیان میں صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ اکتوبر 2020 سے گیس ٹیرف جو 819 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تھا اسے مسلسل بڑھایا گیا اور ایک سال کے اندر اسے بڑھا کر 2400 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کر دیا گیا جبکہ جنوری 2023 سے آر ایل این جی کی مدمیں 40 فیصد مزید اضافہ کرکے صنعتی ٹیرف کو 3200 روپے فی ایم ایم بی ٹی یوکی ناقابل برداشت سطح پر پہنچا دیا گیا۔انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ گزشتہ ماہ وزیراعظم کے ساتھ اسٹیک ہولڈرز کے اجلاس میں پیٹرولیم ڈویژن کراچی کی صنعتوں سے شدید اختلاف کا شکار تھا جس کے باوجودایس ایس جی سی ایل نے صنعتی گیس فراہمی کے لیے آر ایل این جی کے لیے مزید 40 فیصد تک چارج کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ کوئی کراچی کی تمام صنعتوں کو بند کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔آئی ایم ایف کے حکم پر توانائی کے نرخوں (گیس اور بجلی) میں بار بار ہونے والے بے تحاشہ اضافے اور دیگر مہنگے صنعتی اِن پٹ،روپے اور ڈالر کے زبردست اتار چڑھاؤ اور عالمی سطح پر مسابقت کے لیے برابری کی بنیاد پر مواقع نہ ہونے کی وجہ سے صنعتیں بندش کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ برآمدات پر مبنی صنعتیں باالخصوص درآمدی متبادل صنعتیں عمومی طور پر بڑے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں جس کا پاکستان کی تاریخ میں کبھی مشاہدہ نہیں ہوا جہاں پیداواری لاگت کی ناقابل برداشت لاگت کی وجہ سے صنعتی اور برآمدی پیداوار تھم گئی ہے۔


افتخار شیخ نے کہا کہ کراچی میں بہت سی صنعتیں پہلے ہی اپنی پیداوار بند کر چکی ہیں اور بڑی تعداد میں صنعتوں کو بند ہونے کا خدشہ ہے۔نہ صرف گیس بلکہ برآمدی شعبے کے لیے بجلی کی قیمت بھی 115 فیصد اضافے سے 20 روپے فی کلو واٹ سے بڑھا کر 43.07 روپے کلو واٹ کر دی گئی ہے اور عام صنعتوں کے لیے بجلی 42 فیصداضافے سے 30.39 روپے فی کلو واٹ سے بڑھا کر 43.07 روپے کلو واٹ کر دی گئی ہے۔مزید برآں گیس کے نرخوں میں اضافے نے صنعتوں کی جانب سے ایس ایس جی سی کو جمع کرائے جانے والے سیکیورٹی ڈپازٹ کو بھی متاثر کیا ہے جو کہ بالکل ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مشکلات یہاں ختم نہیں ہوئیں بلکہ صنعتیں ہفتے میں دو دن گیس کی لوڈشیڈنگ برداشت کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ رواں ہفتے ایس ایس جی سی نے ہفتہ اور اتوار کو معمول کی ہفتہ وار معطلی کی بجائے جمعہ اور ہفتہ کو گیس کی سپلائی بند کر کے ایک اور جھٹکا لگایا ہے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر ہم اتوار کو اپنی لیبر فورس کو پیداوار کے لیے بلائیں گے تو کیا ایس ایس جی سی اوور ٹائم اجرت پر ہونے والے اخراجات کو برداشت کرے گی؟
انہوں نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ گھریلو اور کھاد کے شعبوں کو کراس سبسڈی فراہم کی جا رہی ہے جو مکمل طور پر صنعتی و تجارتی صارفین برداشت کرتے ہیں خاص طور پر اربوں روپے منافع کمانے والے فرٹیلائزر سیکٹر کے معاملے میں یہ کراس سبسڈی انتہائی ناانصافی ہے کیونکہ یہ ایسا سیکٹر ہے جو اربوں روپے کماتا ہے، گیس پر سبسڈی لیتا ہے اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ مقامی طور پر تیار کی جانے والی کھاد کو اسمگل کیا جا رہا ہے جو کہ ملک سے باہر گیس اسمگل کرنے کے مترادف ہے۔


صدر کے سی سی آئی نے زائد کاروباری لاگت کی کچھ اہم وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں کم از کم اجرت 25000 روپے ماہانہ سے بڑھا کر 32000 روپے کر دی گئی ہے،پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر جنوری 2023 میں 234.13 روپے سے 20 فیصد بڑھ کر 11 جنوری 2024 کو 281.05 روپے تک پہنچ گیا ہے،اسٹیٹ بینک کی پالیسی ریٹ 22 فیصد، ایکسپورٹ ری فنانسنگ اور ایل ٹی ایف ایف پ19 فیصد کی بلند ترین سطح پر ہے۔تجارت و صنعت کو بے دردی سے متاثر کرنے والے ان تمام سخت عوامل کی وجہ سے ملکی برآمدات جولائی تا جون 2021-22 کے دوران 31.78 ارب ڈالر سے 12.71 فیصد کم ہو کر جولائی تا جون 2022-23 کی مدت میں 27.74 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جو کہ مالی سال 2022-2023 کے 32.35 ارب ڈالر کے ہدف کے مقابلے میں 16.61 فیصد کی کمی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں اور اقدامات کے پہلے سے ہی بیمار معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ صنعتیں بند ہونا شروع ہو گئی ہیں جس سے برآمدات کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ بھی کم ہو جائے گا۔صنعتی سرگرمیاں بند ہونے سے بڑے پیمانے پر چھانٹی بھی ہو گی جو امن و امان کی صورتحال کو مزید خراب کرکے بدامنی کا باعث بنے گی۔


افتخار شیخ نے اس بات پر زور دیا کہ حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ کاروباری اداروں کو حوصلہ افزائی کے ذریعے سہارا دینے کے لیے دانشمندانہ فیصلے کیے جائیں اور کاروبار کرنے کی زیادہ لاگت کی صورت میں جرمانے کی بجائے معیشت کو بحال کرنے والے اقدامات اٹھائے جائیں۔یوٹیلیٹی چارجز میں بے تحاشہ اور ناقابل برداشت اضافے نے پاکستان کی برآمدات کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے ویلیوایڈڈٹیکسٹائل مصنوعات عالمی منڈیوں میں مسابقت کے قابل نہیں رہیں۔اطلاعات کے مطابق فرینکفرٹ میں ہونے والی ہیم ٹیکسٹائل 2024 نمائش میں شرکت کرنے والے ٹیکسٹائل سے وابستہ صنعتکاروں نے غیر ملکی خریداروں کے لیے قابل قبول نرخوں کا حوالہ دینے سے معذوری ظاہر کی ہے جیسا کہ علاقائی مسابقتی ممالک کے برآمد کنندگان نے نسبتاً کم شرحوں کی پیشکش کی ہیں جسے پاکستانی برآمد کنندگان زیادہ پیداواری لاگت کی وجہ سے پیش نہیں کر سکتے۔

ایسے نامساعد حالات میں کراچی کی صنعتیں گیس کے اتنے زیادہ نرخوں پر برآمدی مصنوعات تیار کرنے سے قاصر ہیں لہٰذا پالیسی سازوں کو فیصلوں پر نظرثانی کرنی چاہیے اور توانائی کے نرخوں میں کمی لانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ صنعتوں کے پہیہ گھومتا رہے۔انہوں نے نگران وزیر اعظم سے پرزور اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور قومی مفاد میں ان سب مسائل کو حل کرنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس بلائیں۔

About admin

Check Also

Sugar export

شوگر ملوں نے 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت مانگ لی

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ملک کی شوگر …

Sugar

سندھ حکومت کا شگر ملز مالکان اور کاشتکار رہنماؤں کے ساتھ اعلی سطحی اجلاس

کراچی: 09 اکتوبر 2024، سندھ حکومت کا شگر ملز مالکان اور کاشتکار رہنماؤں کے ساتھ …

Ex Governor

پاکستان میں سرمایہ کاری کے شعبے میں بڑی پیش رفت

اسلام آباد۔ 8اکتوبر2024 : پاکستان میں سرمایہ کاری کے شعبے میں بڑی پیشرفت ہوئی ہے …

Cotton

مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران روئی کا بھاؤ مستحکم رہا

کراچی: 05 اکتوبر 2024، مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران پھٹی کی رسد …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے