لاہور، 04 نومبر 202 پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری پر جاری بحث کے درمیان وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اس قومی اثاثے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ پی آئی اے کی حالت ابتر ہے، مگر اس کو بہتر پالیسیوں اور سرمایہ کاری کے ذریعے دوبارہ منافع بخش بنایا جا سکتا ہے۔
وزیر نے واضح کیا کہ پی آئی اے کو کسی بھی صورت اونے پونے داموں نہیں بیچنا چاہیے، اور اگر خیبر پختونخوا، پنجاب یا کوئی اور صوبہ اس میں حصہ لینا چاہے تو انہیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ماضی کی حکومتوں نے بھی اس ادارے کی موجودہ حالت میں اپنا حصہ ڈالا ہے، اور وہ خود اس عمل کے آغاز میں شامل تھے۔
عبدالعلیم خان نے کہا کہ ان کی وزارت کا کام پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ان کے پاس پی آئی اے کی اصلاحات کرنے کا اختیار نہیں، کیونکہ یہ عمل ان کی وزارت سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نجکاری کے عمل کو شفاف طریقے سے انجام دیا جائے گا اور اس کے تمام مراحل میڈیا کی موجودگی میں ہوں گے۔
آنے والے چیلنجز اور مواقع
پریس کانفرنس کے دوران وزیر نے پی آئی اے کی موجودہ مالی حالت کے تناظر میں حکومت کے دیگر اداروں کی نجکاری کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کی باقی ماندہ 200 ارب روپے کی واجبات کو حکومت نکال کر "کلین پی آئی اے” فراہم کر سکتی ہے، جس سے سرمایہ کاری کے امکانات بڑھیں گے۔
عبدالعلیم خان نے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں سعودی عرب سے 34 ایم او یوز پر دستخط ہو چکے ہیں، اور دیگر ممالک جیسے روس اور چین سے بھی سرمایہ کار آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق، مستقبل میں مواصلات کے شعبے میں ریونیو کی وصولی میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔
اختتام پر
وزیر نے کہا کہ قوم کو یاد رکھنا چاہیے کہ پی آئی اے ایک قومی اثاثہ ہے جس کی بحالی کی کوششوں میں ہر پاکستانی کی دلچسپی ہونی چاہیے۔ ماضی کی حکومتوں کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے، ہمیں آگے بڑھنا ہوگا اور پی آئی اے کو ایک منافع بخش ادارہ بنانے کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔
عبدالعلیم خان کی اس پریس کانفرنس نے نہ صرف پی آئی اے کی موجودہ حالت کو اجاگر کیا بلکہ اس کے مستقبل کی جانب بھی اشارہ کیا، جس کے لئے مناسب پالیسی سازی اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔