کرا چی ( 12 ستمبر 2024): صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے آگاہ کیا ہے کہ پاکستان بھر کی کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری مانیٹری پالیسی سے مایوس ہے: کیونکہ یہ بنیادی افراط زر کی بہ نسبت ابھی بھی بھاری پریمیم پر مبنی ہے۔ اگرچہ ایف پی سی سی آئی 200 بیسس پوائنٹ یا 2 فیصد کی کمی کو ویلکم کرتی ہے؛ لیکن یہ کمی مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ہو نے والی اشیاء کی قیمتو ں میں گرا وٹ کے مقابلے میں بہت نا کافی اوربہت وقت ضائع کرنے کے بعد کی گئی ہے۔
عاطف اکرام شیخ نے نشاندہی کی کہ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کے ذریعے حکومت کے اپنے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اگست 2024 کے دوران پاکستان میں بنیادی مہنگائی کی شر ح 9.6 فیصد تک پہنچ گئی۔ لہذا، بنیادی افراط زر کے مقابلے میں موجودہ شرح سود میں کمی کے بعد بھی حقیقی سود کی شرح 790 بیسس پوائنٹ سے پلس ہے؛ جو کہ ایک کاروبار مخالف اور معا شی ترقی کے مخالف عمل ہے۔
صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے مزید کہا کہ مارکیٹ کے اندازوں کے مطابق ستمبر 2024 کے لیے بنیادی افراط زر تقریباً 8.0 فیصد کے قریب ہونے جا رہا ہے۔مزید برآں، تیل کی بین الاقوامی قیمتیں 3 سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہیں اوررواں ہفتے کے دوران 70 ڈالر فی بیرل سے کم ہوگئی ہیں۔لہذا، حکام کے پاس شر ح سود میں خاطر خواہ کمی کا اعلان کرنے کے لیے تمام ضروری لوازمات موجود تھے۔
لیکن پھر بھی رجعت پسند، غیر پیداواری اور معا شی سرگرمیوں پر منفی اثر انداز ہونے والی ما نیٹری پالیسی کو جاری کھا گیا۔ عاطف اکرام شیخ نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت؛ کاروبار کرنے میں آسانی اور فنانس تک رسائی اس کی برآمدی منڈیوں میں اپنے تمام حریفوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ خوش قسمتی سے افراط زر میں نمایاں کمی کا رجحان پچھلے کئی مہینوں سے جاری ہے اور اقتصادی ترقی کی شاہر اہ پر دوبارہ گامزن ہونے کا واحد قابل عمل حل صنعتوں اور برآمدات کو سپورٹ کرنا ہے۔
ایف پی سی سی آئی کے صدر نے واضح کیا کہ شرح سود کو فوری طور پر 12 فیصد تک لانا چاہیے؛ تاکہ پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے کسی حد تک سرمایہ کی لاگت کو بامعنی انداز میں کم کر کے علاقائی اور بین الاقوامی برآمدی منڈیوں میں مقابلہ کر نے کے قابل بنایا جا سکے۔ یہ ا قدام صنعت کے لیے بجلی کے نرخوں کو معقول بنانے کے حکومتی وعدے کی تکمیل کے ساتھ ہونا چاہیے اور آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پی ایس) کے پاور پرچیز ایگریمنٹس (پی پی ایز) پر دوبارہ گفت و شنید کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔
عاطف اکرام شیخ نے بطور صدر ایف پی سی سی آئی؛جو کہ پاکستان کا اعلیٰ ترین تجارتی و صنعتی ادارہ ہے؛ پاکستان کی پوری کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کی جانب سے اقتصادی پالیسی سازی میں شفافیت اور مشاورت لانے کے لیے حکومت کے نقطہ نظر پر سوال اٹھایا ہے۔صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ حکومت کو کاروباری اداروں کے لیے دو سوالوں کے جوابات فراہم کرنے چاہئیں تاکہ وہ اپنے آئندہ آنے والے سالوں کی بہتر منصوبہ بندی کر سکیں: (i)
نئے آئی ایم ایف پروگرام کو حاصل کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں اور ان سے پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت پر کیا اثر پڑے گا (ii) معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام پر دستخط کرنے کے بعد کیا اقدامات کیے جائیں گے اور حکومت ان اقدامات پر کاروباری برادری کو کب اور کیسے اعتماد میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایس ایم تنویر، سرپرست اعلیٰ یو بی جی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو فوری طور پر عام افراط زر کی بجائے بنیادی افراط زر پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس میں ٹوکری کے انتہائی غیر متزلزل اور غیر متعلقہ اجزاء شامل نہیں ہیں۔
یعنی خوراک اور توانائی۔ حکومت کو ذخیرہ اندوزی، قیمتوں میں اضافے اور بددیانتی کے خلاف چوکس کارروائیوں کے ذریعے قیمتوں پر قابو پانے کے اقدامات کی تاثیر کو یقینی بنانا چاہیے۔ یونائیٹیڈ بزنس گروپ کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم تنویرنے وضاحت کی کہ 2022 اور 2023 میں 6 سہ ماہیوں کے دوران پالیسی ریٹ کی شرح میں 9.75 فیصد سے 22 فیصد تک بڑے اضافے کے باوجود افراط ز بہت زیادہ رہا اور ما نیٹری پا لیسی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ہمیں اپنی ما نیٹری اوربجٹ پالیسیاں اپنے زمینی حقائق اورہارڈ فیکٹس کی بنیاد پر بنانا شروع کرنا چاہیے۔