کراچی: جمہوریہ کروشیا کے سفیر ڈاکٹر ڈریگو اسٹمبوک نے کہا ہے کہ اگرچہ کروشیا اور پاکستان دوست ممالک ہیں لیکن دوطرفہ تجارت زیادہ خوش آئند نہیں کہ اس پر فخر کیا جا سکے لہٰذا کروشین سفارتخانہ اسے بہتر بنانے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔دونوں ممالک کے کاروباری افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنا میرا فرض ہے اسی لیے میں دونوں ممالک کے درمیان سیاسی و اقتصادی مشاورت کا اہتمام کروں گا تاکہ باہمی تجارت کو بہتر بنایا جا سکے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پرکراچی میں کروشیا کے اعزازی قونصل جنرل مرزا عمران بیگ، صدر کے سی سی آئی افتخار احمد شیخ، سینئر نائب صدر الطاف اے غفار، نائب صدر تنویر احمد باری، سابق صدر مجید عزیز اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔کروشیا کے سفیر نے کہا کہ مرزا عمران بیگ کی کراچی میں کروشیا کے اعزازی قونصل جنرل کے طور پر تقرری سے کروشین سفارتخانے کے امور میں مدد ملے گی۔
وہ نہ صرف تجارت کو بہتر بنانے بلکہ ویزوں کے اجراء میں بھی سہولت فراہم کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی ذمہ داری نبھائیں گے۔انہوں نے ویزوں کے اجراء میں تاخیر کو تجارت میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے یقین دلایا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔اس حوالے سے کراچی میں کروشیا کے اعزازی قونصل جنرل سے تبادلہ خیال کیا گیا جن کے ویزا کے اجراء کے عمل کو آسان بنانے کے اقدامات کی مکمل حمایت کی جائے گی۔انہوں نے بتایا کروشیا یورو زون کا رکن ہے، بڑی بندرگاہوں اور ریلوے نیٹ ورک کے ساتھ شاندار جیو پولیٹیکل پوزیشن رکھتا ہے۔
اس لیے کروشیا کو وسطی اور جنوب مشرقی یورپ کا مرکز بنانے کے لیے کام جاری ہے تاہم کروشیا آبادی کے لحاظ سے نیچے آ رہا ہے اور اسے باالخصوص ہنر مند اور نوجوانوں کی ضرورت ہے۔پاکستان شاندار انسانی وسائل، اچھی تعلیم یافتہ، انگریزی بولنے والی آبادی کے ساتھ ذہین تاجروں کا حامل ملک ہے۔انہوں نے پاکستانیوں کو کروشیا آنے کی دعوت دیتے ہوئے اُن کے ملک کے مختلف شعبوں باالخصوص سیاحت کی صنعت میں کام کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا جہاں ہر سال لاکھوں سیاح آتے ہیں اور بعض اوقات زیادہ سیاحوں کی آمد کی وجہ سے انتظامات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کراچی میں کروشیا کے اعزازی قونصل جنرل مرزا عمران بیگ نے اس موقع پر کہا کہ کروشیا میں پاکستانیوں کے لیے انتہائی شاندار اور بے پناہ کاروباری مواقع موجود ہیں جو سلووینیا، ہنگری، سربیا، بوسنیا اور مونٹی نیگرو کی سرحد سے متصل یورپ کا گیٹ وے ہے اس کے علاوہ اٹلی کے ساتھ سمندری سرحد کا اشتراک بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔کروشیا اور پاکستان کے درمیان تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ کروشیا کو پاکستان کی برآمدات میں سالانہ 7.71 فیصد کی رفتار سے بہتری آ رہی ہے جبکہ کروشیا کی پاکستان کو برآمدات میں بھی 4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اگرچہ یہ ایک مثبت علامت ہے تاہم یہ اب بھی بہت کم ہے اور اس میں اضافے کی بہت گنجائش موجود ہے۔
انہوں نے ویزوں کے اجراء میں تاخیر سے نمٹنے کے حوالے سے یہ یقین دلایا کہ ہم پاکستان میں ڈراپ باکس سروس کھولنے پر غور کر رہے ہیں جس کو یقینی بنایا جائے گا لیکن اس میں وقت لگے گا کیونکہ کروشیا ایران اور پاکستان سمیت تین ممالک اس میں شامل ہیں۔ایران میں واقع کروشیا کا سفارتخانہ پاکستان کے لیے خدمات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔انہوں نے اس سال کے وسط تک کراچی چیمبر کے تعاون سے تجارتی وفد کو کروشیا لے جانے اور بزنس کونسل کے قیام کا بھی عندیہ دیا تاکہ کروشیا اور پاکستان کے درمیان تجارت سے متعلق تمام مسائل کو ایک چھتری تلے حل کیا جا سکے۔
قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر افتخار احمد شیخ نے کروشیا کے سفیر کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ بے پناہ تجارتی موقعوں کے باوجود کروشیا کو پاکستان کی برآمدات بہت کم ہیں جو کہ مالی سال2022 میں تقریباً 41 ملین ڈالر کے مقابلے میں مالی سال 2023 میں تقریباً 25 ملین ڈالر رہیں۔یورپی یونین پاکستان کے لیے سب سے بڑا برآمدی مقام رہا ہے۔یورپی یونین کو ہماری مجموعی برآمدات مالی سال 2023 میں 27.73 ارب ڈالر کی مجموعی برآمدات کا تقریباً 30 فیصد رہیں جس میں سے 8.4 ارب ڈالر کی اشیا یورپی یونین کو برآمد کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان تقریباً 339 ارب ڈالر کی ایک بڑی مارکیٹ ہے اور اس میں توانائی، پٹرولیم، ٹیکسٹائل، ایس ایم ایز، ہیلتھ سیفٹی، سائبرسیکیورٹی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، اسٹارٹ اپس اور ٹیکنالوجی انفرااسٹرکچر بشمول آئی ٹی پارکس وغیرہ کے شعبوں میں اسٹریٹجک سرمایہ کاری کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔پاکستان کے پاس کم لیبر کے اخراجات کے ساتھ وافر انسانی وسائل ہیں جو کہ کروشیا کے سرمایہ کاروں کے لیے ٹیکنیکل اور اسکل ڈیولپمنٹ کے شعبے میں اپنے نوجوانوں کے لیے پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کروشین ویزا کے اجراء آفس کی عدم موجودگی کے باعث پاکستانی تاجروں کو ویزا درخواست کے لیے ایران جانا پڑتا ہے۔نتیجتاً ایران کے ذاتی دورے نہ صرف تاجروں کے اخراجات میں اضافے بلکہ قیمتی وقت بھی ضائع کرنے کا باعث ہیں۔پاکستان اور کروشیا کے درمیان برآمدات کے محدود حجم میں یہ رکاوٹ ایک اہم وجہ کے طور پر سامنے آئی ہے۔انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان میں کروشیا کے اعزازی قونصل جنرل کو کے سی سی آئی کی سفارش پر پاکستانی کاروباری اداروں کے لیے ویزے جاری کرنے کی اجازت دی جائے۔