جمعہ , جنوری 10 2025
تازہ ترین
KCCI

ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کا فیصلہ

کراچی: وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پائیدار ترقی کے لیے میکرو اکنامک استحکام کے حصول کے لیے کوششیں جاری ہیں کیونکہ اگر حکومت میکرو اکنامک استحکام حاصل کیے بغیر ترقی پر مبنی اقدامات کرتی ہے جو ماضی میں بھی کیا گیا تھا تو اس سے ادائیگیوں کے توازن کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا لہٰذا میکرو اکنامک استحکام کے لیے مشکل فیصلے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے جس کے حاصل ہونے پر تاجر برادری کے ساتھ ساتھ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم ہوگا۔

 یہ بات انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ قیصر احمد شیخ، وزیر مملکت برائے خزانہ، محصولات و بجلی علی پرویز ملک، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو ملک امجد زبیر ٹوانہ، چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا، وائس چیئرمین بی ایم جی ہارون فاروقی، انجم نثار اور جاوید بلوانی، صدرکے سی سی آئی افتخار احمد شیخ، سینئر نائب صدر الطاف اے غفار، نائب صدر تنویر احمد باری، کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین، سابق صدور و دیگر بھی موجود تھے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کو اسٹرکچرل مسائل کا سامنا ہے کیونکہ جب بھی ترقی کو تیز کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے ادائیگیوں کے توازن میں مسئلہ پیدا ہوا جو ایک بنیادی مسئلہ ہے اور ہمیں اس سے نکلنا ہوگا۔ہم ترقی کی جانب تب ہی گامزن ہو سکتے ہیں جب ہمارے پاس کافی فسکل اسپیس ہو جسے برآمدات کی صورت میں ہونا چاہیے۔اس ضمن میں تاجر برادری، برآمدکنندگان اور ویلیو ایڈڈ سیکٹر کو کردار ادا کرنا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ خاص طور پر تنخواہ دار طبقے کے لیے بڑھایا گیا ٹیکس ایک قلیل مدتی اقدام ہے لیکن یقینی طور پر یہ آسان نہیں تھا۔ہم نے اس سال تاجر برادری اور تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس بڑھایا لیکن ہم ایسا بار بار نہیں کر سکتے کیونکہ ان سب پر بہت زیادہ بوجھ ہے لہٰذا دیگر تمام غیر ٹیکس والے شعبوں بشمول ریٹیلرز، زراعت، ریئل اسٹیٹ سیکٹر وغیرہ کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا تاکہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ کم کیا جاسکے۔انہوں نے زرعی شعبے پر ٹیکس لگانے کے لیے قانون سازی کرنے پر اتفاق کرنے پر تمام وزرائے اعلیٰ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس وقت صوبائی موضوع ہے۔ہم سڑک کے اختتام پر کھڑے ہیں کیونکہ ہم تاجر برادری اور تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس میں اضافہ جاری نہیں رکھ سکتے۔اس لیے ہمیں غیر ٹیکس والے شعبوں کو معیشت میں لانا ہوگا اور ٹیکس کے قوانین کے موثر نفاذ کو یقینی بنانا ہوگا۔

انہوں نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں ایک فیصد کمی کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ درست سمت میں ایک قدم ہے اور افراط زر کو مدنظر رکھتے ہوئے خواہ یہ کسی حد تک بڑھ بھی جائے، اسٹیٹ بینک کے پاس اب بھی اتنی گنجائش ہوگی کہ وہ شرح سود کو بتدریج مزید نیچے لے آئے۔زائد شرح سود کے علاوہ زائد ٹیکسوں اور توانائی کے نرخوں کی وجہ سے تاجر برادری کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جو سب یکجا ہو چکے ہیں لیکن حکومت ان تمام مسائل سے باخبر ہے۔تاجر برادری بجا طور پر توانائی کے مسابقتی ٹیرف کا مطالبہ کرتی ہے لیکن ریلیف صرف دستیاب فسکل اسپیس کے مطابق فراہم کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر پاکستان 8 ارب ڈالر کی زرعی برآمدات اور 3.2 ارب ڈالر کی آئی ٹی برآمدات حاصل کر سکتا ہے تو متعلقہ تاجروں کو 10 ارب ڈالر کی زرعی برآمدات اور 5 ارب ڈالر کی آئی ٹی برآمدات حاصل کرنے کا اارادہ کریں۔

وزیر خزانہ نے بینکوں کے ساتھ اپنی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بینکوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ نجی شعبے خصوصاً کسانوں اور ایس ایم ایز کو زیادہ سے زیادہ قرضہ دیں جنہوں نے ملک کو آگے لے کر چلنا ہے۔نجی شعبے کو کیش فلو کی بنیاد پر کریڈٹ فراہم کرنا ضروری ہے نہ کہ گِروی رکھنے کی بنیاد پر جو کہ مختلف بینک کر رہے ہیں جبکہ دوسرے بینکوں کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔انہوں نے بتایا کہ 30 جون 2024 تک کے تمام طے شدہ ٹیکس ریفنڈز یکم جولائی 2024 کو صنعتوں کو مجموعی طور پر 51 ارب روپے تک جاری کیے گئے ہیں اور اگر ڈیوٹی ڈرابیک کو بھی شامل کیا گیا تو مجموعی ریفنڈز 70 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔اگر ہم ان ریفنڈز کو روکتے ہیں تو اس سے صنعتوں کے لیے سرمائے کی لاگت بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہ تقریباً 20 فیصد کی شرح سے ورکنگ کیپیٹل حاصل کرتی ہیں جو کہ کاروباری لاگت میں اضافہ ہے۔انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ وزیر اعظم کی واضح رہنمائی کے تحت حکومت 8 سے 10 ماہ تک ریفنڈز نہیں روکے گی لیکن انہیں فوری طور پر تعین کے بعد جاری کر دیا جائے گا۔

انہوں نے وزیروں کو مفت فراہم کی جانے والی متعدد سہولیات کے بارے میں غلط فہمی پر تبصرہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ تنخواہ نہیں لیتے اور وہ کے سی سی آئی میں موجود تمام وزراء کے ساتھ یوٹیلٹی بل اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں البتہ کم از کم وفاقی سطح پر ہمیں اپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت میں ڈاکٹر عشرت حسین نے حکومت کو رائٹ سائز کرنے کے حوالے سے رپورٹ پیش کی لیکن بدقسمتی سے وہ رپورٹ جو ایک بہت اچھی کاوش تھی کبھی اس پر توجہ نہیں دی گئی۔وزیراعظم کی زیر نگرانی رائٹ سائزنگ کمیٹی تمام وزارتوں اور اداروں کے اخراجات کا جائزہ لے رہی ہے جنہیں وزیر اعظم کی طرف سے اعلان کیے جانے والے ایک موثر نفاذ کے منصوبے کے تحت بتدریج تبدیل یا ضم کر دیا جائے گا۔

About admin

Check Also

FO Addressing

وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسیت کا تاریخی فیصلہ

اسلام آباد، 19 دسمبر 2024: وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسیت، محترمہ فوزیہ وقار نے ایک …

DALFA Cattle Show

ڈیلفا کیٹل شو 17 سے 19 جنوری 2025 تک کراچی کے ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوگا

کراچی، 18 دسمبر 2024: گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی ہدایت پر کراچی کے گورنر …

DUHS And APPNA

ڈاؤ یونیورسٹی اور اپنا کا اشتراک: ڈاؤ-اپنا سینٹر فار ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کے قیام کا اعلان

کراچی، 18 دسمبر 2024: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور ایسوسی ایشن آف فزیشنز آف …

FBR

ملک بھر کے سپیشل اکنامک زونز کا فضائی جائزہ مکمل

اسلام آباد، 18 دسمبر 2024: وفاقی وزیر سرمایہ کاری بورڈ عبدالعلیم خان کی ہدایت پر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے