کراچی، 29 اکتوبر 2024: کو ڈاؤ میڈیکل کالج میں منعقدہ ایک اہم سمپوزیم میں پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر صبا سہیل نے کہا کہ پاکستان ایشیا میں بریسٹ کینسر کی سب سے زیادہ شرح کے ساتھ آگے ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ 30 سال سے زائد عمر کی خواتین میں یہ بیماری بڑھ رہی ہے، لیکن اکثر کیسز کی تشخیص اسٹیج تھری اور فور میں ہوتی ہے، جو کہ اسکریننگ نہ کروانے کی وجہ سے ہے۔
ڈاکٹر سہیل نے بتایا کہ بروقت میموگرافک اسکریننگ کے ذریعے بریسٹ کینسر سے ہونے والی اموات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے خواتین کو مشورہ دیا کہ 40 سال سے زائد عمر کی ہر خاتون کو ہر دو سال بعد یہ ٹیسٹ کروانا چاہیے تاکہ بیماری کی بروقت تشخیص اور علاج ممکن ہو سکے۔
اس سمپوزیم کا انعقاد ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور سول اسپتال کے بریسٹ سرجری یونٹ کے اشتراک سے کیا گیا۔ اس موقع پر مختلف اہم شخصیات، بشمول ایم پی اے امیر حیات ہراج، ڈاکٹر نرجس مظفر، اور ڈاکٹر مریم نعمان نے شرکت کی۔
ڈاکٹر صبا سہیل نے بریسٹ کینسر کی ریڈیولاجیکل اسکریننگ سے متعلق غلط فہمیوں کا جائزہ پیش کیا، اور بتایا کہ 63.4 فیصد پاکستانی عوام کو یہ غلط فہمی ہے کہ میموگرافی میں ریڈی ایشن کی وجہ سے بریسٹ کینسر ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے کہا کہ 30 سے 40 سال کی خواتین کو بھی اسکریننگ کروانی چاہیے۔
سمپوزیم میں مختلف ڈاکٹروں نے بریسٹ کینسر کے علاج کی مختلف حکمت عملیوں پر گفتگو کی، بشمول سرجری، کیموتھراپی، اور ریڈییشن۔ ڈاکٹر راجا راہول نے سول اسپتال کے آنکولوجی ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار پیش کیے، جن کے مطابق 2020 سے 2024 کے دوران کینسر کے 5,051 مریضوں میں 34 فیصد بریسٹ کینسر کے کیسز تھے۔
سمپوزیم کے اختتام پر، پروفیسر صبا سہیل اور سول اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے اسپیکرز کو شیلڈز اور سرٹیفکیٹس پیش کیے، جبکہ بریسٹ کینسر سے متعلق آگاہی مہمات بھی شروع کی گئیں۔
اس سمپوزیم کا مقصد عوام میں آگاہی بڑھانا اور بریسٹ کینسر کی بروقت تشخیص کے طریقوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا، تاکہ اس خطرناک بیماری سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔