کراچی، 10 دسمبر 2024: سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین پروفیسر سید محمد طارق رفیع نے کہا کہ تحقیق کے بغیر ترقی ممکن نہیں، اور یہ تحقیق اس وقت تک اثرانداز نہیں ہو سکتی جب تک اس کے ساتھ ٹھوس سفارشات اور درست ڈیٹا موجود نہ ہو۔ انہوں نے یہ بات 21ویں بین الاقوامی شماریاتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جو ڈاؤ یونیورسٹی کے اوجھا کیمپس میں "پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے بگ ڈیٹا سائنس اور بگ ڈیٹا کو متحرک کرنے” کے موضوع پر منعقد کی گئی تھی۔
پروفیسر طارق رفیع نے کہا کہ پاکستان میں شماریات کی کمی کی وجہ سے کئی مسائل کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، اور اس کی بنیاد پر حکومتی پالیسیاں بھی کمزور ہو سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم عالمی سطح پر دستیاب ڈیٹا پر انحصار کرتے ہیں کیونکہ اپنے ملک میں کچھ مسائل کا مکمل ڈیٹا تک نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر تحقیق میں مناسب سفارشات شامل نہ ہوں تو وہ کسی کام کی نہیں۔
انہوں نے تحقیق کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو خوراک کی کمی، موسمیاتی تبدیلی، سیلابوں کے اثرات، پولیو اور صحت کے دیگر مسائل پر فوری تحقیق کی ضرورت ہے، تاکہ ان کے حل کے لیے مفید پالیسیز تیار کی جا سکیں۔ چیئرمین سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس بات پر زور دیا کہ تحقیق کے نتائج کا ماحول اور معاشرے پر مثبت اثر پڑنا ضروری ہے، ورنہ وقت اور وسائل ضائع ہو جاتے ہیں۔
پروفیسر سید محمد طارق رفیع نے یہ بھی کہا کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) ایک اہم ٹول ہے لیکن وہ کبھی بھی انسانوں کے خیالات اور سوچ کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کر سکتی۔ "مشینیں انسانوں کی تخلیق ہیں اور وہ کبھی انسانوں کی جگہ نہیں لے سکتیں،” انہوں نے کہا۔
کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے شماریاتی سائنس کے کردار کو تسلیم کیا اور کہا کہ یہ ڈیٹا کے تجزیے کے لیے اہم ہے، خصوصاً جب ہم مصنوعی ذہانت کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شماریات اور اے آئی کا امتزاج نئے حل تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے، خاص طور پر صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں۔
کانفرنس میں بین الاقوامی ماہرین نے اپنی تحقیق پیش کی اور اس بات پر زور دیا کہ شماریاتی ماڈلز اور اے آئی کی طاقت کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ صحت کی پالیسیز اور حکمت عملیوں کو مضبوط بنایا جا سکے۔
اس موقع پر مختلف عالمی ماہرین نے بھی اپنے مقالے پیش کیے، جن میں بنگلہ دیش سے پروفیسر شاہ جہاں خان اور کینیڈا سے پروفیسر سید اعجاز احمد شامل تھے۔ اس تین روزہ کانفرنس میں مختلف سیشنز میں عالمی تجربات کا تبادلہ کیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ تحقیق کے نتائج کو عملی طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان سے عوام کو فائدہ پہنچے۔