رپورٹ :مظہر علی رضا
عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلی دنیا کیلئے ایک سنگین چیلنج کی شکل اختیار کرگئی ہے۔گلوبل وارمنگ کے اس خطرہ کے باعث دنیا کے متعدد ممالک کو سیلاب،خشک سالی،جنگلات میں آگ بھڑکنے،سمندر کی سطح بلند ہونے،گلیشئر کے پگھلنے،زلزوں اور غذائی عدم تحفظ سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہے۔2023میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث سب سے زیادہ خطرات کا سامنا کرنے والے دس ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ کے باوجود موسمیاتی تبدیلی کے باعث سب سے زیادہ خطرات کے شکار دس ممالک میں پاکستان اس وقت آٹھویں نمبر پر ہے۔
پاکستان اقتصادی سروے کے مطابق سال2022کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کے اب تک کے بدترین سیلابوں میں سے ایک ہے،اس سیلاب کے نتیجہ میں ملک کا ایک تہائی رقبہ زیر آب آیا،سوا تین کروڑ سے زائد افراد اس آفت سے متاثر ہوئے اور لگ بھگ80لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔اس سیلاب کے نتیجہ میں ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 15ارب ڈالرز لگایا گیا،مجموعی قومی آمدن کے نقصان کا تخمینہ15.2ارب ڈالرز رہا اور بحالی کے مکمل کاموں کی تکمیل کیلئے 16ارب ڈالرز کی ضرورت کا تخمینہ لگایا گیا۔اس سیلاب کے نتیجہ میں انفرا اسٹریکچر،زراعت،گلہ بانی،ماہی گیری کے شعبہ میں بے پناہ نقصان ہوا۔عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلی کے باعث دنیا میں گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں زیادہ کردار ادا کرنے والے ممالک کی ذمہ داری کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے،اور ایسے ممالک کی ترقی کا بوجھ اٹھانے والے ممالک کے نقصانات کے ازالہ اور ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد کے حوالے سے بھی دنیا میں ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والے ممالک کسی طور پر خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔
سال2007میں انڈونیشیا کے دارالحکومت بالی میں منعقدہ کوپ 13کانفرنس میں بالی ایکشن پلان کے تحت موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث نقصانات اور تباہی کے ازالہ کیلئے عالمی سطح پر ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والے ممالک کی جانب سے مالی معاونت کا معاملہ اٹھایا گیا،سال 2009میں کوپن ہیگن میں کوپ15کانفرنس کے دوران امیر ممالک نے 2022سے سالانہ 100ارب ڈالرز اس مد میں دینے کی حامی بھری،تاہم اب تک ان ممالک کا یہ وعدہ وفا نہیں ہوسکا ہے۔
سال2021میں گلاسگو میں منعقدہ کوپ 26کانفرنس میں ماحولیاتی تبدیلی کے شکار ممالک نے نقصانات اور تباہی کے ازالہ کیلئے ایک نئی مالی فنڈنگ سہولت کے قیام کی ضرورت پر زور دیا،تاہم امیر ممالک کی جانب سے اس تجویز کو بھی مسترد کردیا گیا۔آخر کار پاکستان نے 2022میں شرم الشیخ میں منعقدہ کوپ27میں نقصانات اور تباہی کے ازالہ کیلئے فنڈ کے قیام کیلئے اہم کردار ادا کیا،اور عالمی رہنماؤں کو اس فنڈ کے قیام پر آمادہ کرنے میں سفارتی کامیابی حاصل کی۔پیرس معاہدہ2015،موسمیاتی فنانسنگ کے حق کو تسلیم کرتا ہے،معاہدہ کے آرٹیکل نو کے مطابق ترقی یافتہ ممالک اپنی عالمی ذمہ داریوں کے طور پر ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلوں کے اثرات سے نمٹنے کیلئے مالی معاونت فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں،پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے سالانہ7تا14ارب ڈالرز کی ضرورت ہے۔
سال2010کے سیلاب کے بعد پاکستان کو دنیا بھر سے لگ بھگ تین ارب ڈالرز کی امداد موصول ہوئی تھی،تاہم سال2022کے تاریخی اور بدترین سیلاب کے اثرات سے نکلنے کیلئے جنیوا کانفرنس میں پاکستان کیلئے لگ بھگ آٹھ تا نو ارب ڈالرز کی امداد کے وعدوں کے باوجود اب تک محض 30کروڑ ڈالرز ہی مل چکے ہیں،واضح رہے کہ 2022کے سیلاب سے بحالی کیلئے اقوام عالم کی جانب سے اعلان کردہ اربوں ڈالرز میں سے محض15فیصد ہی امداد ہے جبکہ 85فیصد کی رقم لون تصور کی جائیگی۔
پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے سنگین خطرات سے بچانے اور اس کا مقابلہ کرنے کیلئے دنیا کو اپنے وعدوں پر جلد اور مکمل طور پر عمل کرنا ہوگا اور دوسری جانب پاکستان کو بھی اس رقم کے درست اور شفاف استعمال کیلئے مقامی حکومتوں کے نمائندوں کے ساتھ ملکر حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی،تاکہ مستحق افراد تک اس امداد کی فراہمی کو یقینی بنا کرنہ صرف سیلاب سے متاثرہ افراد کو ان کے پیروں پر کھڑا کیا جاسکے بلکہ عالمی دنیا میں اپنی ساکھ کو بھی برقرار رکھا جاسکے۔