کراچی (11 جنوری 2024) : صدرایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یورپی یونین کا 27 ملکی اقتصادی اتحاد جس کی مجموعی جی ڈی پی تقریباً 20 ٹریلین ڈالر ہے پاکستان کی معیشت کو دائمی خستہ حالی سے نکلنے میں مدد کر سکتی ہے۔ پاکستان اور یورپی یونین کے مابین واسیع تر اقتصادی تعلقات میں برآمدات کو بڑھانا کلیدی اہمیت کا حامل ہونا چاہیے۔
پاکستان نے 10 سال کے عرصے میں یورپی یونین کو برآمدات میں 108 فیصد حوصلہ افزا اضافہ حاصل کیا ہے۔ تاہم، اپنے جی ایس پی پلس حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے، ہمیں کام جاری رکھنا ہوگا اور یورپی یونین کے معیار ات پر پورا اترنے کے لیے چوکنا رہنا چاہیے۔واضح رہے کہ پاکستان میں یورپی یونین کی سفیر ڈاکٹر رینا کیونکا نے اپنے سینئر ٹیم ممبران کے ہمراہ کراچی میں ایف پی سی سی آئی کے ہیڈ آفس کا تفصیلی دورہ کیا؛جس کا مقصد جی ایس پی پلس کے مواقع اور تقاضوں کو پورا کرنے میں اعلیٰ ادارے کو اپنی مکمل مدد کی یقین دہانی کروانا تھا۔
ایف پی سی سی آئی کے سنیئر نائب صدر ثاقب فیاض مگوں نے وضاحت کی کہ پاکستان حقیقت میں 2014 سے لے کر اب تک جی ایس پی پلس کا ایک بڑا بینفیشری رہاہے؛ کیونکہ اس نے یورپی یونین کو ہماری برآمدات میں سہولت فراہم کی ہے۔ اس سکیم کے تحت پاکستان تقریباً دو تہائی مصنوعات کوزیرو ٹیرف کی شرح پر یا ترجیحی ٹیرف کی شرح پر برآمد کرنے کا اہل ہے اور پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کو اب 2027 تک بڑھا دیا گیا ہے۔
ثاقب فیاض مگوں نے زور دیا کہ، جی ایس پی پلس کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو انسانی اور مزدوروں کے حقوق؛ماحولیاتی تحفظ اور اچھی حکمرانی سے متعلق 27 بین الاقوامی کنونشنز کو مستقل طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ جی ایس پی پلس سے مستفید ہونے والی مصنوعات میں ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، فٹ ویئر، پلاسٹک مصنوعات، ایتھنول، زرعی مصنوعات، پراسیسڈ فوڈز وغیرہ شامل ہیں۔
نائب صدر ایف پی سی سی آئی آصف انعام نے کہا کہ یورپی کمیشن پاکستان میں انڈسٹر ی قائم کرنے کو تحرک دے کر نا صرف پاکستان کی مدد کر سکتا ہے بلکہ یو رپی یونین کو بھی اپنی بہترین ٹیکنالوجی کی بدولت بین الاقوامی معیار کی مصنوعات کم نرخوں پر ری ایکسپورٹ کے لیے دستیاب ہو سکتی ہیں۔ایف پی سی سی آئی کے سابق نائب صدر شبیر منشاء نے خصوصی طور پر ذکر کیا کہ پاکستان کو یورپی یونین کے ممالک کو بڑی تعداد میں ہنر مند افرادی قوت کو برآمد کرنے پر توجہ دینی چاہیے؛ کیونکہ یہ پاکستان کو باقاعدگی سے زیادہ زرمبادلہ فراہم کر نے کا باعث بنے گا۔
مزید برآں، انفارمیشن ٹیکنا لوجی اوراس سے چلنے والی خدمات اور یورپی یونین کو خوراک کی برآمدات کو بڑھانا چاہیے تاکہ یورپی یونین کے ممالک کی مضبوط معیشتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔حیدرآباد چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایچ سی سی آی) کے صدر عدیل صدیقی نے تجویز پیش کی کہ پاکستان کو فعال طور پر اور مؤثر طریقے سے برآمدات کے ساتھ ساتھ ای یو سے ایف ڈی آیئ اور جے وی ایس کو راغب کرنے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے؛ کیونکہ پاکستان کے پاس یورپی یونین کے سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو پیش کرنے کے لیے بہت کچھ ہے؛ یعنی سستے و وافر انسانی وسائل اور یورپی یونین کے مقابلے میں نسبتاً کم کاروباری لاگت۔ اس وجہ سے ہم یورپی یونین کے تاجروں کے لیے سرفہرست مقامات میں سے ایک بننے کے قابل ہیں۔
پاکستان میں یورپی یونین کی سفیر ڈاکٹر رینا کیونکا نے آگاہ کیا کہ جون 2024 میں یورپی یونین کی ایک نئی پارلیمنٹ اور یورپی یونین کمیشن بنے گا اور پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی بابت قواعد کے فریم ورک میں کچھ نظرثانی یا پالیسی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے مشورہ دیا کہ پاکستان کو انسانی حقوق کے حوالے سے یورپی یونین کے معیارات پر قائم رہنا چاہیے؛جن میں،انسانی حقوق؛ مزدوروں کے حقوق؛ ماحولیاتی معیارات اور گڈ گورننس شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بنیادی طور پر وہ چار شعبے ہیں جہاں پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر رینا کیونکا نے یہ بھی بتایا کہ مذکورہ بالا چار شعبوں کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں مانیٹرنگ رپورٹ نومبر 2024 میں جاری ہونے کی توقع ہے۔مزید برآں، ٹیکسٹائل کے علاوہ بھی یورپی یونین کو پاکستان کی برآمدات میں تنوع لانا چاہیے؛ کیونکہ جی ایس پی+ کے تحت پاکستان کی کل برآمدات کا 80 فیصد سے زیادہ ٹیکسٹائل پر مبنی ہے۔