کراچی، 07 نومبر 2024: ماہرین فالج نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً 3.5 لاکھ افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے تقریباً 40 فیصد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ فالج کا مرض پاکستان میں بہت عام ہے اور اس کی شرح اموات بھی کافی زیادہ ہے۔ یہ باتیں ماہرین نے فالج کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ آگاہی واک میں بیان کیں۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے نیورولوجی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے اس واک کا انعقاد کیا گیا، جس کا آغاز ڈاکٹر عشرت العباد خان او ٹی کمپلیکس سے ہوا اور او پی ڈی بلاک پر اختتام پذیر ہوا۔ واک کی قیادت ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد نے کی، جب کہ اس موقع پر ڈاکٹر طارق فرمان، پروفیسر ڈاکٹر نائلہ نعیم شہباز، ڈاکٹر جواد السلام اور دیگر ڈاکٹرز اور فیکلٹی ممبران بھی موجود تھے۔ اس واک میں ریسکیو 1122 کے رضاکاروں نے بھی شرکت کی۔
ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال میں گفتگو کرتے ہوئے اسٹروک نیورولوجسٹ ڈاکٹر انعامِ خدا نے کہا کہ فالج کی آگاہی بہت ضروری ہے، کیونکہ 90 فیصد کیسز میں اس سے بچاؤ ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ فالج سے بچاؤ کے لیے بلڈ پریشر اور ذیابیطس کو کنٹرول کرنا، خون میں چربی کی مقدار کم کرنا، پھل اور سبزیاں استعمال کرنا اور روزانہ آدھا گھنٹہ واک کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 30 سال سے زائد عمر کے افراد کو سال میں ایک مرتبہ شوگر چیک کروانی چاہیے۔
ڈاکٹر انعام نے اس بات پر زور دیا کہ فالج کے علاج میں وقت کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے، اور مریض کو ابتدائی 4 سے 4.5 گھنٹوں کے اندر اسپتال پہنچانا ضروری ہے تاکہ علاج شروع کیا جا سکے اور دماغ تک خون کی رسائی ممکن ہو سکے۔
ڈاکٹر طارق فرمان نے کہا کہ دنیا بھر میں ہر سال 12 ملین افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے 6 ملین افراد فوت ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تعداد تقریباً 3 لاکھ ہے، اور جو مریض بچ جاتے ہیں، وہ عموماً اپاہج ہو جاتے ہیں، جس سے ان کی دیکھ بھال میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
واک کے اختتام پر شرکا کو صحت مند غذا کے طور پر پھل اور جوس فراہم کیے گئے۔