کراچی، 26 نومبر 2024: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں منعقدہ "جینومک ڈس آرڈر اینڈ ریسے سیو ڈس آرڈر” کے موضوع پر سوئس پاکستان ورکشاپ میں ماہرین نے انکشاف کیا کہ پاکستان دنیا میں کزن میرجز کی سب سے زیادہ شرح رکھنے والے ممالک میں شامل ہے، جس کے نتیجے میں جینیاتی بیماریوں کی بلند شرح سامنے آتی ہے۔
ورکشاپ، جو ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام ہوئی، میں پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے نامور ماہرین نے شرکت کی۔ وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی، پروفیسر ڈاکٹر سعید قریشی نے بتایا کہ پاکستان میں کزن میرجز کی اوسط شرح 65 فیصد سے زائد ہے، جبکہ کچھ برادریوں میں یہ شرح 85 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ کزن میرجز کے سماجی اور معاشی فوائد ہیں، لیکن یہ بچوں میں مختلف جینیاتی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہیں۔
جینیاتی عوارض اور ان کے نتائج
ورکشاپ کے مہمانِ خصوصی، پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمان نے علم و تحقیق کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جینیاتی تحقیق میں ترقی سے ہی پاکستان کے لیے جدید طبی مسائل کا حل ممکن ہے۔
یونیورسٹی آف جینیوا کے پروفیسر اسٹیلیانوسے ای. انتوناراکیس نے بتایا کہ دنیا میں 10 فیصد شادیاں خاندانوں کے اندر ہوتی ہیں، جن کے کچھ فوائد کے باوجود جینیاتی خطرات نمایاں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فرسٹ کزن شادیاں جینیاتی خرابیوں کے امکانات میں اضافہ کرتی ہیں، کیونکہ یہ 55 نایاب ہوموزائگوس ویرئنٹس کا تبادلہ کرتی ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر، امبرین فاطمہ نے کہا کہ پاکستان میں تھیلیسیمیا کیریئر کی شرح 6 فیصد ہے اور مائیکرو سیفیلی کے کیسز دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ انہوں نے جینیاتی بیماریوں کے علاج اور ان پر تحقیق میں سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا۔
ورکشاپ کے اختتام پر مہمانوں کو روایتی اجرک، سندھی ٹوپی اور شیلڈز پیش کی گئیں۔ اس ورکشاپ نے جینیاتی تحقیق میں عالمی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کیا، جو پاکستان میں بڑھتی ہوئی جینیاتی بیماریوں کے حل کے لیے ایک امید کی کرن ثابت ہو سکتی ہے۔