اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے موسم سرما میں صنعتوں کو بجلی کے نرخوں میں ریلیف دینے کی مخالفت کر دی ہے جس کے بعد حکومت نے ریلیف نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاور ڈویژن نے صنعتی بجلی کے صارفین کے لیے بڑھتے ہوئے استعمال پر چار ماہ (نومبر 2023 سے 29 فروری 2024) کے موسم سرما کے لئے خصوصی پیکج کے ملک بھر میں نفاذ کے لیے تین پیکیج تیار کیے تھےجس سے بجلی کے دیگر صارفین کے متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔
ان پیکیجز کے تحت پاور ڈویژن نے 3.32 روپے فی یونٹ سے 7.86 روپے فی یونٹ ریلیف تجویز کیا۔ دوسرے پیکیج میں فی یونٹ 8.57 روپے سے 14.13 روپے فی یونٹ ریلیف، اور تسیرے پیکیج میں 12.28 روپے فی یونٹ سے 17.84 روپے فی یونٹ ریلیف کی تجویز دی گئی تھی۔ پاور ڈویژن کہنا ہے کہ سردیوں کے دوران بجلی کی طلب میں کوئی بھی اضافہ نہ صرف سسٹم کی پیداواری صلاحیت کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو ممکن بنائے گا بلکہ بجلی کی طرف مناسب مانگ کی منتقلی کی وجہ سے گیس کی طلب کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
گذشتہ ماہ اکتوبر میں فنانس ڈویژن نے اپنے اس اسکیم پر اپنےرد عمل میں کہا کہ یہ تجویز دیگر تمام صارفین کی طرف سے صنعتی ٹیرف پر کراس سبسڈی دینے کی تجویز کرتی ہے، جبکہ حکومت پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے پہلے ہی اس بات کا وعدہ کیا ہوا ہے وہ کسی بھی طرح کراس سبسڈی سے نہیں دے گی۔.
31 فنانس ڈویژن نے اپنے تبصروں میں واضح طور پر کہا کہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ اور ایف سی سرچارج اضافی کھپت پر وصول کیے جائیں گے۔ وزارت خزانہ نے پہلے منظور شدہ صنعتی امدادی پیکجوں اور بڑھتی ہوئی کھپت پر قابل مقدار اقتصادی فوائد بھی مانگے تھے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ وفاقی حکومت کے لیے ڈسکوز اور کے الیکٹرک کو قابل ادائیگی سبسڈی پر کوئی اضافی مالی مضمرات فراہم نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی اس سے سرکلر ڈیٹ کے ذخیرے میں اضافہ ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ پاکستان اور آئی این ایف کے مابین جاری مذاکرات کے دوران سردیوں کے پیکج کی تجویز کے حوالے سے معلومات اور پیکیج آئی ایم ایف کے حکام کے ساتھ بھی زیر بحث لائی گئیں ہیں مگر آئی ایم ایف نے اس ریلیف کے حوالے سے اپنی رضامندی ظاہر نہیں کی ہے جس کے بعد اس تجویز پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے ۔