اسلام آباد: خاتون اول بیگم ثمینہ علوی نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً44 ہزار خواتین چھاتی کے کینسر کی تاخیر سے تشخیص کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں، اگر اس کی تشخیص ہو جائے تو 98 فیصد تک زندہ رہنے کے امکانات ہوتے ہیں اس طرح ہزاروں خواتین اور ان کے خاندانوں کو بچایا جا سکتا ہے،
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس بیماری کی ابتدائی علامات کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔نتیجتاً یہ بیماری خاموشی سے پھیلتی جاانا رہی ہے اور جان لیوا ثابت ہورہی ہے۔
وہ اتوار کو پاکستان فارن آفس ویمنز ایسوسی ایشن (پفوا) کے سالانہ چیریٹی بازار کے موقع ہر خطاب کر رہی تھیں۔ اس موقع پر اسلام آباد میں مقیم سفارت کاروں کی بیگمات نے اپنے اپنے ممالک کی ثقافت، کھانوں اور فن پاروں کی عکاسی کرنے والے اسٹالز لگائے۔چیریٹی بازار سے حاصل ہونے والی آمدنی وزارت خارجہ کے کم آمدنی والے ملازمین کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کی جائے گی۔
خاتون اول بیگم علوی نے کہا کہ انہوں نے چھاتی کے کینسر سے متعلق ایک جامع اور ملک گیر آگاہی مہم شروع کی ہے،ہمارے سامنے ایک بڑا چیلنج ملک کے دور دراز علاقوں میں رہنے والی خواتین تک اپنا پیغام پہنچانا تھا،پاکستان میں کینسر کے زیادہ تر کیسز تیسرے یا چوتھے سٹیج میں رپورٹ ہوئے جس کی وجہ سے نہ صرف علاج تکلیف دہ اور مہنگا ہو گیا بلکہ اس کے بچنے کے امکانات بھی کم ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں میموگرافی، الٹراساؤنڈ اور اسکریننگ کی سہولیات کا فقدان ہے یا یہ سہولتیں بہت مہنگی ہیں۔معذور بچوں اور چھاتی کے کینسر کے مسائل کے جلد پتہ لگانے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات بہت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان میں بہت سی زندگیاں بچانے کی صلاحیت موجود ہے۔
عوامی آگاہی میں پیشرفت کے بارے میں بیگم علوی نے بتایا کہ انہوں نے رِنگ بیک ٹون اور میسجز کی مدد سے ملک بھر میں لاکھوں موبائل صارفین تک رسائی حاصل کی ہے اور اس سال پاکستان میں چھاتی کے کینسر سے متعلق 140 ملین سے زیادہ ایس ایم ایس موبائل صارفین کو بھیجے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کے مختلف ہسپتالوں میں تیسرے اور چوتھے مرحلے میں کینسر کے کیسز کی تعداد میں کمی آئی ہے جبکہ پہلے اور دوسرے مرحلے میں کینسر کے کیسز کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا ہے، اب، میموگرافی، الٹراساؤنڈ اور اسکریننگ کی سہولیات ملک بھر کے مختلف ہسپتالوں میں رعایتی نرخوں پر فراہم کی جا رہی ہیں اور ان سہولیات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
خاتون اول نے کہا کہ انہوں نے غلط فہمیوں کو ختم کرنے، شمولیت کو فروغ دینے، جامع تعلیم اور بحالی کی خدمات کو فروغ دینے اور معذور افراد کے لیے مساوی مواقع کو یقینی بنانے کے لیے کام کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک مقصد ان کے تئیں معاشرے میں رویے میں تبدیلی لانا،ان کے مسائل کے اعتبار سے ہمارے معاشرے میں حساسیت پیدا کرنا اور انہیں مرکزی دھارے کا حصہ محسوس کرنا تھا۔
خاتون اول نے معذور افراد کو ان کی اہلیت اور مہارت کے مطابق ہنر، تربیت اور ملازمتوں کی فراہمی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔خاتون اول نے کہا کہ انہوں نے معذوری کے بین الاقوامی ماہرین سے بھی کہا ہے کہ وہ معذور بچوں کو تعلیم دینے کے لیے اساتذہ کی تربیت کے لیے اپنی توانائیاں دیں۔
خاتون اول نے پفوا کے اراکین، فارن سروس کمیونٹی، سفارتی کور، اور نجی تنظیموں کو بھی اس تقریب کی کامیابی میں ان کی غیر متزلزل حمایت اور تعاون پر مبارکباد دی۔ انہوں نے سماجی بہبود میں اہم شراکت کے لیے پفوا کی تعریف کی اور کہا کہ سالانہ چیریٹی بازار ان کی غیر متزلزل لگن کا ثبوت ہے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری وزارت خارجہ سائرس سجاد قاضی نے کہا کہ سالانہ چیریٹی بازار میں دنیا کے مختلف حصوں سے دستکاری اور پکوان پیش کیے جاتے ہیں اور بازار سے حاصل ہونے والی آمدنی پفوا کی فلاحی سرگرمیوں میں جائے گی۔
انہوں نے پفوا کی سماجی بہبود کی کوششوں کو بھی سراہا۔ سرپرست پفوا شائستہ جیلانی نے کہا کہ یہ تقریب پفوا کے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے اور ضرورت مند لوگوں کی خدمت کے عزم کا مظہر ہے۔ پی ایف او ڈبیلیو ایکی صدر شازہ سائرس قاضی نیکہا کہ پفوا گزشتہ 70 سالوں سے ضرورت مند لوگوں کی خدمت کے لیے کوشاں ہے اور پاکستان میں سیلاب زدگان کے ساتھ ساتھ غزہ کے لوگوں اور ترکی اور شام کے زلزلہ متاثرین کی مدد کر رہی ہے۔