کراچی: عاطف اکرام شیخ، صدر ایف پی سی سی آئی، نے کہا ہے کہ گزشتہ دو مانیٹری پالیسی میٹنگز میں پالیسی ریٹ میں کمی کا اعلان بہت کم، بہت دیر سے ہوا ہے – کیونکہ کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کو توقع تھی کہ شرح سود میں زیادہ اور نمایاں کٹوتی ہو گی۔ کلیدی پالیسی کی شرح میں 10 جون کی مانیٹری پالیسی میٹنگ میں صرف 150 بی پی ایس کی کمی اور 29 جولائی کی میٹنگ میں صرف 100 بی پی ایس کی کمی کی گئی۔
عاطف اکرام شیخ نے بتایا کہ کاروباری برادری کی توقعات بنیادی مہنگائی کی شرح میں زبردست کمی سے پیدا ہوئیں اور بنیادی افراط زر وہ پیرامیٹر ہے جو واقعی شرح سود کے مقابلے میں اہمیت رکھتا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے بنیادی افراط زر 11.8 سے12.6 فیصد کے اندر ہے۔ لہذا، پالیسی کی شرح کو فوری طور پر کم کرنے کی ایک بہت بڑی گنجائش موجود ہے۔
عاطف اکرام شیخ نے اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ کاروبار کرنے کی لاگت سب سے زیادہ ہے؛ جبکہ پاکستان میں کاروبار کرنے میں آسانی اور فنانس تک رسائی برآمدی منڈیوں میں اپنے تمام حریفوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم بنیادی افراط زر کے لیے بہت زیادہ پریمیم پر مانیٹری پالیسی جاری نہیں رکھ سکتے۔
ایف پی سی سی آئی کے صدر نے واضح کیا کہ شرح سود کو فوری طور پر 15 فیصد تک لانا چاہیے؛ تاکہ پاکستانی برآمد کنندگان کسی حد تک پروڈکشن لاگت کو بامعنی انداز میں کم کرکے علاقائی اور بین الاقوامی برآمدی منڈیوں میں مسابقت کے قابل بنا سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ قدم صنعت کے لیے بجلی کے نرخوں کو معقول بنانے کے حکومتی وعدے کی تکمیل کے ساتھ ہونا چاہیے۔ جس میں انڈیپینڈینٹ پاور پروڈیوسرز کے پاور پرچیز ایگریمنٹس پر دوبارہ گفت و شنید کرنا شامل ہے۔
عاطف اکرام شیخ نے بطور صدر ایف پی سی سی آئی، پاکستان کے اعلیٰ ترین تجارتی اور صنعتی ادارے، کے پاکستان کی پوری کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کی جانب سے، اقتصادی پالیسی سازی میں شفافیت اور مشاورت لانے میں حکومت کی سنجیدگی پر سوال اٹھایا ہے اور انہوں نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ حکومت کو کاروباروں کے لیے دو طرح کے سوالات کے جوابات فراہم کرنے چاہییں؛ تاکہ وہ اپنی منصوبہ بندی کر سکیں: پہلا تو یہ کہ نۓ آئی ایم ایف پروگرام کو حاصل کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں اور ان سے کاروبار کرنے کی لاگت پر کیا اثر پڑے گا۔ دوسرا یہ کہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے پروگرام پر دستخط کے بعد کیا اقدامات کیے جائیں گے اور حکومت ان اقدامات پر کاروباری برادری کو کب اور کیسے اعتماد میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ایف پی سی سی آئی چیف نے تجویز پیش کی کہ قیمتوں میں استحکام کو فروغ دینے کے لیے یہ سفارش کی جاتی ہے کہ اسٹیٹ بینک بنیادی افراط زر کو ہدف بنائے۔ قیمتوں میں ہیرا پھیری اور ذخیرہ اندوزی کو کنٹرول کرنے کے لیے متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے محکموں کے ساتھ رابطے میں رہنے کی ضرورت ہے۔ ایک فعال اور موثر مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) اور پرائس کنٹرول کے موثر طریقہ کار کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
ناصر خان، نائب صدر، ایف پی سی سی آئی، نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو فوری طور پر عام افراط زر کی بجائے بنیادی افراط زر پر توجہ دینی چاہیے؛ کیونکہ یہ افراط زر کے انتہائی غیر یقینی اجزاء؛ یعنی خوراک اور انرجی کی قیمتوں کو؛ منہا کرکے کیلکیولیٹ کیا جاتا ہے۔ حکومت کو ذخیرہ اندوزی، قیمتوں میں اضافے اور بدعنوانی کے خلاف چوکس کارروائیوں کے ذریعے قیمتوں پر قابو پانے کے اقدامات کی تاثیر کو یقینی بنانا چاہیے۔
ناصر خان، نائب صدر، ایف پی سی سی آئی، نے وضاحت کی کہ 2022 اور 2023 میں 6 سہ ماہیوں کے دوران پالیسی ریٹ میں 9.75 فیصد سے 22 فیصد تک تیر رفتار اور بڑے اضافے کے باوجود، عام افراط زر ضدی حد تک بلند رہا اور اس پالیسی کا کوئی فائدہ نہیں د
ہوا۔
ناصر خان نے اس بات پر زور دیا کہ آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی اگریمنٹ کو مکمل کرنے اور 22 فیصد پالیسی ریٹ کے باوجود پاکستان برآمدات میں کمی اور معاشی عدم استحکام کے مسائل سے دوچار ہے۔ یہ رجحان اس حقیقت کو اچھی طرح سے ثابت کرتا ہے کہ حکومت کو افراط زر کے دباؤ پر قابو پانے کے لیے دیگر پالیسی ٹولز استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔