کراچی: 04 ستمبر 2024 چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر افتخار احمد شیخ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اگلی مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں کم از کم 500 بیسس پوائنٹس کی خاطر خواہ کمی کا اعلان کرے اور موجودہ شرح سود کو 19.5فیصد سے کم کرکے 14.5 فیصد پر لایا جائے چونکہ اگست میں مہنگائی کم ہو کر 9.6 فیصد پر آگئی ہے جبکہ موڈیز نے بھی حال ہی میں مقامی اور غیر ملکی کرنسی جاری کرنے والے اور سینئر غیر محفوظ قرضوں کی درجہ بندی کو بھی سی اے اے3 سے اپ گریڈ کرتے ہوئے سی اے اے2 کیا ہے۔
ایک مشترکہ بیان میں چیئرمین بی ایم جی اور کے سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ افراط زر کی شرح 9.6 فیصد تک گرنے کے بعد تین سال کی کم ترین شرح پر آچکی ہے جو پالیسی ریٹ میں کمی کا ایک مضبوط جواز ہے۔ یہ کمی مئی 2023 میں 38 فیصد کی بلندی پر جانے کے بعد آئی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ مہنگائی کا دباؤ کم ہوا ہے۔سنگل ڈیجٹ کی افراط زر کی شرح اکتوبر 2021 میں دیکھی گئی تھی جب یہ 9.2 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی اور اُس وقت پالیسی ریٹ 7.25 فیصد تھالہٰذا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ صنعتی اور اقتصادی سرگرمیوں کو متحرک کرنے کے لیے پالیسی ریٹ میں نمایاں کمی کی اشد ضرورت ہے۔
چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے کہا کہ مالی سال2024 میں بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ انڈیکس میں نمو 0.9 فیصد کی معمولی سطح پر رہی جو طویل عرصے سے جاری بلند پالیسی ریٹ کی شرح کے منفی اثرات کو نمایاں کرتی ہے۔اس لیے پالیسی ریٹ میں کمی نہ صرف مینوفیکچرنگ سیکٹر کو انتہائی ضروری ریلیف فراہم کرے گی بلکہ اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کا بھی سبب بنے گی۔مجموعی قرضوں میں نجی شعبے کا حصہ جولائی 2019 میں 29.7 فیصد سے کم ہو کر جولائی 2024 میں 19.8 فیصد رہ گیا ہے۔پالیسی کی شرح کو کم کرنے سے نجی شعبے میں قرض لینے اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے جس سے معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی حقیقی شرح سود یعنی پالیسی ریٹ مائنس افراط زر اس وقت 9.9 فیصد ہے جو کہ پڑوسی ممالک بھارت، چین اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھا جہاں حقیقی شرح سود بالترتیب 3.0 فیصد، 2.9 فیصد اور مائنس 3.2 فیصد ہے۔اس صورتحال میں پالیسی ریٹ میں کمی یقینی طور پر پاکستان کی علاقائی مسابقت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ پالیسی ریٹ میں 1 فیصد کمی سے تقریباً 467 ارب روپے کے قرضوں کی فراہمی کے اخراجات کی بچت ہو سکتی ہے جس سے خاطر خواہ مالی ریلیف ملے گا اور حکومت پر مالی بوجھ کم ہو گا۔
کراچی چیمبر کے صدر افتخار احمد شیخ نے کہا کہ عالمی اجناس کی قیمتوں میں نمایاں کمی بشمول گندم کی قیمتوں میں 23.1 فیصد کمی اور ملکی زرعی پیداوار میں بہتری نے مہنگائی کے دباؤ کو کم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگست 2021 کے 7 فیصد پالیسی ریٹ کو مئی 2023 تک 22 فیصد تک تیزی سے بڑھا نا مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے مؤثر نہیں تھا لہذا متبادل مانیٹری اقدامات پر غور کرتے ہوئے پالیسی کی شرح میں کمی کی جانی چاہئے جس سے معاشی ترقی میں تیزی آئے گی۔جولائی 2024 تک مجموعی قرضوں میں حکومت کا حصہ بڑھ کر 79.3 فیصد تک پہنچ گیا جبکہ نجی شعبے کا ہجوم محروم رہا۔پالیسی کی شرح میں کمی سے نجی شعبے کی طرف قرض کی تقسیم کو متوازن کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
زبیر موتی والا اور افتخار شیخ نے اِن تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اسٹیٹ بینک اپنے اگلے مانیٹری پالیسی اسٹیٹمنٹ کے اعلان میں کم از کم 500 بیسس پوائنٹس کی خاطر خواہ کمی لے کر آئے گا جس کا تاجر برادری کی جانب سے بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا جائے گا کیونکہ اس سے کاروبار کو اشد ضروری ریلیف فراہم کرنے میں مدد ملے گی جو کاروبار کرنے کی بے پناہ لاگت کی وجہ سے بقا کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔
Check Also
وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسیت کا تاریخی فیصلہ
اسلام آباد، 19 دسمبر 2024: وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسیت، محترمہ فوزیہ وقار نے ایک …
ڈیلفا کیٹل شو 17 سے 19 جنوری 2025 تک کراچی کے ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوگا
کراچی، 18 دسمبر 2024: گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی ہدایت پر کراچی کے گورنر …
ڈاؤ یونیورسٹی اور اپنا کا اشتراک: ڈاؤ-اپنا سینٹر فار ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کے قیام کا اعلان
کراچی، 18 دسمبر 2024: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور ایسوسی ایشن آف فزیشنز آف …
ملک بھر کے سپیشل اکنامک زونز کا فضائی جائزہ مکمل
اسلام آباد، 18 دسمبر 2024: وفاقی وزیر سرمایہ کاری بورڈ عبدالعلیم خان کی ہدایت پر …