حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالی عنہ ايک صحابی تھے جو بدر کی لڑائی ميں شريک نہيں ہو سکے تھے۔ ان کو اس چيز کا صدمہ تھا، اس پر اپنے نفس کو ملامت کرتے تھے کہ اسلام کی پہلی عظيم الشان لڑائی ميں شريک نہ ہو سکا، ان کی تمنا تھی کہ کوئی دوسری لڑائی ہو تو اپنی خوائش پوری کروں۔
اتفاق سے احد کی لڑائی پيش آ گئی جس ميں يہ بڑی بہادری اور دليری سے شريک ہوۓ۔ احد کی لڑائی ميں اول اول تو مسلمانوں کو فتح ہوئی، آخر ميں ايک غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کو شکست ہوئی، وہ غلطی يہ تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے کچھ آدميوں کو ايک خاص جگہ مقرر فرمايا تھا کہ تم لوگ اس جگہ سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک ميں نہ کہوں کيونکہ وہاں سے دشمن کے حملے کا خطرہ تھا۔
جب مسلمانوں کو شروع ميں فتح ہوئی تو کافروں کو بھاگتا ديکھ کر يہ لوگ بھی اپنی جگہ سے يہ سمجھ کر ہٹ گئے کہ اب جنگ ختم ہو چکی ہے اس ليے بھاگتے ہوۓ کافروں کا پيچھا کيا جاۓ اور غنيمت کا مال حاصل کيا جاۓ۔ اس جماعت کے سردار نے منع بھی کيا کہ حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کی ممانعت تھی کہ تم يہاں سے نہ ہٹنا مگر وہ لوگ يہ سمجھ کر وہاں سے ہٹ گئے کہ حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کاا ارشاد صرف لڑائی کے وقت تک تھا۔
بھاگتے ہوۓ کافروں نے اس جگہ کو خالی ديکھ کر اس طرف سے آ کر حملہ کر ديا۔ مسلمان بےفکر تھے، اس اچانک بے خبری کے حملے سے مغلوب ہو گئے اور دونوں طرف سے کافروں کے بيچ ميں آ گئے جس کی وجہ سے ادھر ادھر پريشان ہو کر بھاگے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے ديکھا کہ سامنے سے ايک دوسرے صحابی حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ بن معاذ آ رہے ہيں، ان سے کہا کہ "کہاں جا رہے ہو..؟ اللہ کی قسم ! جنت کی خوشبو احد کے پہاڑ سے آ رہی ہے..” يہ کہہ کر تلوار جو ہاتھ ميں تو تھی ہی ، سونت کر کافروں کے ہجوم ميں گھس گئے اور تب تک لڑے جب تک شہيد نہيں ہو گئے۔
شہادت کے بعد ان کے بدن کو ديکھا گيا تو چھلنی ہو گيا تھا،، تير اور تلوار کے اسی (80) سے زيادہ زخم ان کے بدن پر تھے، ان کی بہن نے انگليوں کے پوروں سے ان کو پہچانا۔۔
جو لوگ اخلاص اور سچی طلب کے ساتھ اللہ کے کام ميں لگ جاتے ہيں ان کو دنيا ہی ميں جنت کا مزہ آنے لگتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ زندگی ہی ميں جنت کی خوشبو سونگھ رہے تھے، اگر اخلاص آدمی ميں ہو جائے تو دنيا ميں جنت کا مزہ آنے لگتا ہے۔۔! (حکايات صحابہ , صفحہ 29،30..)