ایک محفل میں جانا ہوا لیا قت میڈیکل کا لج جامشورو سیر ت نبیۖ کانفرنس اس مجلس میں شرکت کی۔ اس مجلس میں ایک اسلامیات کے لیکچرار نے حضور اقدس کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شادی کیوں کی اور اس سے امت کو کیا فائدہ ھوا۔ یہ بیان اتنا موثر تھا کہ میں چاہونگی کہ سب کیساتھ شئیر کروں ۔
1⃣ میرے پیا رے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم شبا ب میں (25 سال کی عمر میں )ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے شادی کی ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی عمر 40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔ 50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کی ۔ (اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی وفا ت کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکا ح کئے ۔ پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا کہ یہاں بہت سے نو جوان بیٹھے ہیں …… آ پ میں سے کون جوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شا دی کرے گا….؟ سب خاموش رھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا ہے ، پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیارہ شادیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہیں سوائے ایک کے، باقی سب بیوگان تھیں ۔ یہ سن کر سب حیران ہوئے ۔
پھر مجمع کو بتایا کہ جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لو گو ں کو تر غیب دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ سے مختلف اوقات میں نکاح کیے ۔ آپ کو دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا گھرانے آباد ہوگئے –
2⃣ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ عربو ں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید ترین مخالف تھا۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہو گئی۔ ہوا یہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہ شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجر ت کر گئیں ، وہا ں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا ۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور بہت مشکلا ت سے گھر پہنچیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دل جوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا.
3⃣ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ کا والد قبیلہ مصطلق کا سردار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ سے جہاد کیا ، ان کا سردار مارا گیا ۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ کر کے سر دار کی بیٹی کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے ۔
4⃣ خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورے سے ا ن کا نکاح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرادیا ۔ اسی طر ح میمونہ رضی الله عنہ سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا ۔ ان شادیوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مطالعہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو ۔
5⃣ حضرت زینب بنت حجش سے نکاح مبتنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا ۔ حضرت زید رضی الله عنہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے متبنی کہلائے تھے، ان کا نکاح حضرت زینب بنت حجش سے ہوا ۔ منا سبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی الله عنہ نے طلا ق دے دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر لیا اور ثابت کر دیا کہ متبنی ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا.
اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سر چشمہ قرآنِ پاک اور حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی سیرت پاک ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحاب ِ صفہ رضی الله عنہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ لیکن عورتوں میں اس کام کے لیے ایک جما عت کی ضرورت تھی۔حضرت عائشہ سے کم عمری میں نکاح کا مقصد یہی تھا کہ اللہ پاک جانتے تھے کہ ان سے لمبے عرصے تک احادیث کی تدوین اور درس و تدریس کا کام لینا ہے باقی ازدواج مطہرات کے لیے بھی آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ جو بہت ذہین ، زیرک اور فہیم تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ 45 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوتا ۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی روایات کی تعداد 368 ہے ۔ ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازدواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ کے گھر، عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لیے تھی اور سار ی دنیا کے لیے تھی اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
آخر میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ مذکورہ بالا بیان میں گرجوں میں لوگوں کو سناتا ہوں اور وہ سنتے ہیں ۔ با قی ہدایت دینا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکات کو یاد کر لیں اور کوئی بدبخت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرے تو ہم سب اس کا دفاع کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور عمل کرنے والا بنائے ۔
(آمین )
💞صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم
منقول