رپورٹ: نادر خان
کراچی :ڈی جی ایف آئی اے نے ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ کراچی کے عہدے پر انچارج سائبر کرائم ونگ کراچی عامر نواز کوقائم مقام کی حیثیت سے تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر شہزاد حیدر 27 جنوری 2024کو منیجمنٹ کورس سے واپس آنے کے بعد دوبارہ اسی عہدے پر فرائض انجام دیں گے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ایچ آر ایم رضوان احمدکی جانب سے ڈی جی ایف آئی اے محسن بٹ کی منظوری سے جاری کرنے والے نوٹیفکیشن کے مطابق گریڈ 18 کے افسر عامر نواز کو قائم مقام کی حیثیت سے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی کے عہدے پر اضافی چارج دیا گیا یے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ کراچی شہزاد حیدر 34کامن کورس سے واپس آنے کے بعد دوبارہ اپنا عہدہ سنبھال لیں گے ۔
واضح رہے کہ ڈی جی ایف آئی اے نے 19 اکتوبر کو اسی عہدے سے متعلق وزارت داخلہ کو ایک نوٹیفکیشن کے زریعے آگاہ کیا تھا کہ منیجمنٹ کورس کے باعث ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی شہزاد حیدر سے عہدہ واپس لیا گیا ہے اور کورس مکمل کرنے کے بعد وہ ایف آئی اے ہیڈکوارٹر رپورٹ کریں گے۔
اس نوٹیفکیشن کے اجراء کے باوجود ایڈیشنل ڈائریکٹر شہزاد حیدر 2 نومبر 2023 تک نیپا کراچی میں منیجمنٹ کورس کی کلاس لینے کے بعد شام میں دفتری امور سنبھالتے رہے ہیں اور سائبر کرائم ونگ کراچی کے افسران کو شام ساڑھے 5 بجے کے بعد اہم دستاویزات کی منظوری اور فائلوں پر دستخط کے لئے طلب کرتے رہے ہیں ۔
یاد رہے کہ رولز کے مطابق کامن کورس کے لئے نامزد افسران کو اپنے عہدے کا چارج چھوڑنا پڑتا ہے اور ایف آئی اے کی ماضی میں روایات رہی ہیں کہ کوئی بھی افسر جب منیجمنٹ کورس پر جاتا ہے تو واپس اپنے عہدے پر بحال نہیں ہوتا جب تک ہیڈکوارٹر رپورٹ نہ کرئے اور نئے نوٹیفکیشن کے زریعے اگلے عہدے پر افسر کی تعیناتی ہوتی رہی ہے ۔
واضح رہے کہ سابق ڈائریکٹر ساوتھ زون سائبر کرائم ونگ عاصم قائم خانی نے ایڈیشنل ڈائریکٹر شہزاد حیدر کے خلاف ڈی جی ایف آئی اے کو کیس پراپرٹی استعمال کرنے کے معاملے پر انکوائری شروع کرنے کی درخواست کی تھی تاہم نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ انکوائری ڈی جی آفس میں ختم کردی گئی تھی جب کہ سائبر کرائم ونگ کراچی میں افسران کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں کیونکہ کہ ایک برس کے دوران سائبر کرائم میں 12 ہزار ایسی درخواستیں موجود ہیں جن پر کوئی سنوائی نہیں ہوئی جب کہ 85 مقدمات میں مدت گزر جانے کے باوجود تفتیشی افسران عدالتوں میں چالان جمع نہیں کراسکے ہیں جب کہ 5 ہزار ایسی انکوائریاں ہیں جن پر تاحال فیصلہ نہیں ہوسکا کہ ان انکوائریوں کو مقدمات میں تبدیل کرنا ہے یا انکوائریوں کو بند کرنا ہے ۔