تحریر:شرمین نیاز
سربراہ مشرق گلوبل نیٹ ورک،پاکستان
عالمی افرادی قوت کے متحرک منظر نامے میں صنفی مساوات ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ یہ صرف انصاف کا معاملہ ہی نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک ضرورت بھی ہے۔ مختلف ٹیمیں، بطور تحقیق ، تیز تر جدت، لچک اور اعلیٰ کارکردگی، پھر بھی خاص طور پر قائدانہ کرداروں میں صنفی فرق واضح ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم 2022کی گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس رپورٹ اس فرق کو نمایاں کرتی ہے اور پاکستان اس فہرست میں 146ممالک میں سے145ویں نمبر پر ہے۔
تاہم، پاکستان اپنی بھرپور تاریخ اور مختلف ثقافتی پس منظر کے ساتھ اس بیانیے کو تبدیل کرنے کیلئے تیار ہے، خواتین کو با اختیار بنانے کیلئے قوم کا عزم اس کے اقدامات اور پروگراموں سے عیاں ہے۔ اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام(یو این ڈی پی)اہم اور دیرپا تبدیلی کیلئے معاشرے کے تمام شعبوں میں خواتین کی شرکت کے ضروری کردار پر زور دیتا ہے اور ملک میں اپنے کام کے ہر پہلو میں صنفی مساوات کو فعال طور پر مربوط کررہا ہے۔
ثقافتی اور سماجی اصولوں کے باعث افرادی قوت میں پیدا ہونے والے صنفی فرق کو ختم کرنے کیلئے جدید حل کی ضرورت ہے۔ایسا ہی ایک حل کام کے زیادہ لچکدار ماحول کو اپنانے میں ہے۔یہ نقطہ نظر نہ صرف جدید افرادی قوت کی ابھرتی ہوئی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ خواتین کو اپنی پیشہ وارانہ اورذاتی زندگی میں توازن قائم کرنے میں درپیش انوکھے چیلنجز سے بھی نمٹنے میں مدد دیتا ہے۔
پاکستا ن کی افرادی قوت میں صنفی فرق سے متعلق حقائق:
پاکستان کی افرادی قوت میں صنفی عدم مساوات ایک کثیر الجہتی مسئلہ ہے،جس کی جڑیں اقتصادی، ثقافتی اورسماجی جہتوں میں پیوست ہیں۔ پاکستان میں صنفی عدم مساوات کے بارے میں یو این ڈی پی کی رپورٹ مردوں اور عورتوں کے درمیان اجرت کے فرق کو واضح کرتی ہے، خواتین کو اکثر کم تنخواہ والی ملازمتوں اور ترقی کے محدود مواقع کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک میں سینئر،انتظامی اور قانون سازی کے کرداروں میں دنیا کے مقابلے میں خواتین کا سب سے کم حصہ ہے،جو کہ محض4.5فیصد بنتاہے۔
ثقافتی عقائد اور معاشرتی اصول خواتین کے کیریئر کی رفتار پر اثر انداز ہوتے ہیں، اورروایتی طور پر مردوں کے زیر اثر شعبہ جات کے حوالے سے ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، مزید بر آں خواتین کی تعلیم میں پیشرفت کے باوجود، بہت سی لڑکیاں اب بھی معیاری تعلیم تک رسائی سے محروم ہیں،جو ان کے مستقبل کے کیریئر کے امکانات میں رکاوٹ ہیں۔رپورٹ میں خواتین کی محدود سیاسی نمائندگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث انہیں درپیش انوکھے چیلنجز پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جوخاص طور پر دیہی علاقوں میں افرادی قوت میں خواتین کی شرکت کی صلاحیت کومزید محدود کرتے ہیں۔
حکومت،نجی شعبہ اور سول سوسائٹی سمیت مختلف شراکت داروں کی مشترکہ کوششوں سے،زیادہ جامع اور صنفی توازن والی افرادی قوت کو فروغ دینے کی بھرپور صلاحیت ہے۔ورلڈ بینک نے حال ہی میں پاکستان ہیومین کیپیٹل ریویو پر ایک رپورٹ جاری کی ہے،جس کے مطابق پاکستان کو ہیومین کیپیٹل انڈیکس ویلیو0.41 ہے،جو کہ جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے اورافریقہ کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔رپورٹ میں جن وجوہات پر روشنی ڈالی گئی ہے،ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہیومین کیپیٹل کے استعمال میں صنفی عدم مساوات بہت زیادہ ہے،جو کہ ہیومین کیپیٹل انڈیکس قدر میں ایڈجسٹ شدہ مردوں کیلئے 0.31اور خواتین کیلئے صرف0.08ہے۔کام کرنے کی عمر کی تقریباً 60فیصد خواتین زیر ملازمت،زیر تعلیم یا زیر تربیت نہیں ہیں۔
لچک کی طاقت:
کام کی جگہ میں لچک محض ایک رجحان سے آگے بڑھی ہے، یہ ایک بڑے پیمانے پر تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے، جس طرح ہم آج کام کو دیکھتے ہیں۔ کام کے لچکدار ماحول کو اپنانے سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ پاکستانی خواتین کیلئے یہ لچک ایک پل ثابت ہوسکتی ہے، جس سے وہ اپنی خاندانی وابستگیوں کو کیریئر کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگی سے ضم کرسکتی ہیں۔ اس کی تائید انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ایک مطالعہ سے ہوتی ہے، جس میں کام کے لچکدا رماحول اور پاکستان کی افرادی قوت میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت کے درمیان مضبوط تعلق پایا جاتا ہے۔لیکن لچک کے فوائد محض ملازمین کیلئے مخصوص نہیں ہیں، ادارے بھی پیداواری صلاحیت میں اضافہ، لاگت کی بچت اور ملازمین کی حوصلہ افزائی جیسے فوائد سمیت سکتے ہیں۔ اداروں کیلئے ان فوائد سے قطع نظر، معیشت میں خواتین کی فعال شرکت کو آگے بڑھانے کا معاشی جواز بھی ہے۔ افرادی قوت میں صنفی مساوات کے حصول کے تخمینہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سال2025تک پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی60فیصد تک بڑھ سکتی ہے، اسی طرح لیبر فورس میں صنفی فرق کو ختم کرنے سے 30فیصد جی ڈی پی ایک ساتھ بڑھ سکتا ہے۔
آگے بڑھنے کا راستہ:
اگرچہ ایک لچکدار کام کے نقطہ نظر کی خوبیاں ناقابل تردید ہیں، لیکن پاکستان کے ورک کلچر میں اس کے انضمام کومنفرد چیلنجوں کا سامنا ہے۔ سماجی معیارات اور توقعات اکثر روایتی کام کے ڈھانچے پر اثر انداز ہوتے ہیں، جس کے باعث لچکدار ماڈلز کی تبدیلی ایک اہم ثقافتی منتقلی ہوتی ہے۔ پھر بھی کاروباری اداروں،پالیسی سازوں اور وسیع تر کمیونٹی کی متحد کوششوں سے،ہم زیادہ جامع اور لچکدار کام کے ماحول کیلئے راہ ہموار کرسکتے ہیں۔صنفی مساوات کے فروغ کیلئے مشرق کا عزم اس سفر میں امید کی کرن کے طور پر موجود ہے۔ مشرق عالمی Reignite پروگرام جیسے اہم اقدامات کے ذریعہ،نہ صرف خواتین کی شرکت کی حمایت کررہا ہے بلکہ ایک ایسا منظر نامہ تیار کرنے کیلئے سرگرم عمل ہے،جہاں خواتین پہل کرنے والی اور لیڈر کے طور پر ابھریں۔
صنفی مساوات کیلئے دیگر حل کیلئے کوشاں مشرق جیسی کمپنیاں لچکدار کام کے جن طریقہ کار کا نفاذ کرتی ہیں،وہ کثیر الجہتی ہیں۔ایک مضبوط کمپنی کی ثقافت کی تعمیر میں سب سے اہم ہے۔اس میں مضبوط تعاون کا فروغ،بات چیت کے عمل کو یقینی بنانا،مساوی مواقعوں کی ضمانت،اور کارکردگی کی غیر جانبدارانہ تشخیص کے نظام کا نفاذ شامل ہے۔ایسا ماحول تمام ملازمین کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے ساز گار ہے۔
پوشیدہ تعصبات کی نشاندہی ایک اہم پہلو ہے۔ دقیانوسی تصورات، جیسے دوردراز کے کام کو بنیادی طور پر خواتین پر مبنی فوائد کے طورپر دیکھنا،یا شادی اور زچگی کے بعد خواتین کو مخصوص عہدوں تک محدود رکھنے کو حل کرنا ضروری ہے۔شمولیت کو ترجیح دیکر اور پے ایکویٹی آڈٹ جیسے حل کے نفاذ کے ذریعہ،کمپنیاں مختلف افرادی قوت کو کام کے لچکدار نظام کو اپنانے کی ترغیب دے سکتی ہیں۔
تنوع اور شمولیت کی تربیت ملازمین اور منیجرز کو صنفی تعصبات سے آگاہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہی، کیونکہ وہ روزمرہ کے تعاملات میں ان تعصبات پر قابو پانے کے طریقہ پر روشنی ڈالتے ہیں۔
کمپنیوں کیلئے قیادت کے تعصبات کو چیلنج کرنا بھی ضروری ہے،یہ خیال فرسودہ اور پرانا ہے کہ قائدانہ صلاحیت کا تعین جنس سے ہوتا ہے۔قیادت کو مہارت،تجربہ اور خوبیوں کی بنیاد پر اس بات کو یقینی بناتے ہوئے پہچانا او ر پروان چڑھایا جاناچاہیئے، کہ ہم اپنی افرادی قوت کے اندر موجود مختلف صلاحیتیوں کی قدر کریں اور ان کا استعمال کریں۔
مردوں کے مقابلے میں فطری طور پر زیادہ نگہداشت اور ہمدرد خواتین سے متعلق دقیانوسی تصورات پر بھی یہی بات لاگو ہوتی ہے۔ان موجودہ حل کے ساتھ،ہم ایک ایسے مستقبل کی توقع کرسکتے ہیں،جہاں کام کی جگہ زیادہ جامع،متنوع اورہر ایک کیلئے ترقی کے اعتبار سے ساز گار ہو۔
پیشرفت کا عزم:
ہمیں آگے بڑھتے ہوئے یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمارا مقصد محض ایک متوازن افرادی قوت کا حصول نہیں،بلکہ ایک ایسے ماحول کی تشکیل ہے،جہاں صنف سے قطع نظر ہر فرد کو سبقت،اختراع اور قیادت کا موقع ملے۔