بلوچستان میں انسانی سلامتی اور حکمرانی کے مسائل پر بات کرتے ہوئے، بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ اس صوبے کی ترقی کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، جو نہ صرف موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرے بلکہ مستقبل میں ترقی کی راہ ہموار کرے۔
جام کمال خان نے کہا کہ بلوچستان کا جغرافیائی منظرنامہ اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے لوگ اکثر تنہائی میں رہتے ہیں اور یہاں ہمیشہ کولیشن حکومتیں بنی ہیں کیونکہ سیاسی پارٹیوں کا ڈھانچہ بہت چھوٹا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاور کو ڈی سنٹرلائز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی سطح پر فیصلہ سازی کی صلاحیت بہتر ہو سکے۔ "پالیسی کا تسلسل ضروری ہے، پاکستان میں کسی بھی پالیسی کو تسلسل سے چلانے کی کمی ہے،” جام کمال خان نے کہا۔
معاشی ترقی اور سماجی انصاف کے حوالے سے، انہوں نے کہا کہ "ہمیں اجتماعی طور پر سوچنا ہوگا، انفرادی فیصلوں سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔” ان کے مطابق بلوچستان کی 45 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور یہاں کی تعلیمی شرح بھی قومی اوسط سے کم ہے۔
جام کمال خان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سی پیک اور گوادر کے ترقیاتی منصوبے بلوچستان کے لیے اقتصادی مواقع فراہم کریں گے، لیکن اس کے لیے مقامی معیشت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں مقامی عوام کی شمولیت اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا اہم ہے تاکہ صوبے کی حکمرانی مضبوط ہو سکے اور معیشت مستحکم ہو۔
انہوں نے بلوچستان میں تعلیمی معیار کی بہتری اور انسانی سلامتی کے حوالے سے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ "صوبے میں ہر شہری کو محفوظ ماحول فراہم کرنا ہماری ترجیح ہے۔”
بلوچستان کے مسائل کا حل ایکو سسٹم میں تبدیلی اور شفافیت کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں میں مقامی عوام کی شرکت میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی کامیابی پاکستان کی کامیابی سے جڑی ہوئی ہے۔
جام کمال خان نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل صرف مربوط حکمت عملی کے ذریعے ممکن ہے جو مقامی ضروریات اور عالمی چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دی جائے۔