کراچی، 2 دسمبر 2024: پاکستانی کینو، جو کبھی بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی مٹھاس اور معیار کی وجہ سے مشہور تھا، آج شدید بحران کا شکار ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں، پرانی ورائٹیز، اور حکومتی بے حسی نے اس صنعت کو گہری مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں کینو کی پیداوار اور برآمدات میں 50 فیصد کمی دیکھنے کو ملی ہے۔
پیداوار میں کمی کے اسباب
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق، رواں سال کینو کی برآمدات کا ہدف صرف ڈھائی لاکھ ٹن رکھا گیا ہے، جو پچھلے سال سے پچاس ہزار ٹن کم ہے۔ ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ، وحید احمد کے مطابق، طویل گرمی اور سردی کے موسم کی تاخیر کی وجہ سے کینو کی فصل کا معیار اور مقدار دونوں متاثر ہو رہے ہیں۔ اس سال پیداوار میں 35 فیصد کمی کا اندیشہ ہے۔
کینو کی پرانی ورائٹی
پاکستان میں کینو کی ورائٹی 60 سال پرانی ہے، جو موسمی اثرات اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ دنیا میں کسی بھی ورائٹی کی عمر 25 سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اگر اس صورتحال پر توجہ نہ دی گئی، تو آنے والے تین سالوں میں کینو کی برآمدات مکمل طور پر بند ہو سکتی ہیں۔
برآمدات کے مسائل
کینو کی برآمدات کے لیے چین اور ایران جیسی اہم منڈیاں بند ہو چکی ہیں۔ روس اور یوکرین کے تنازعے نے مزید مشکلات کھڑی کر دی ہیں، جبکہ یورپ اور دیگر ممالک کو کینو بھیجنے کے لیے بڑھتے ہوئے شپنگ اخراجات اور طویل وقت بھی مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں۔
مقامی منڈی پر اثرات
مقامی مارکیٹ میں بھی کینو کی کم پیداوار اور معیار کی کمی کا اثر دیکھا جائے گا۔ رواں سال کینو کی قیمتیں پچھلے سال کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ رہنے کی توقع ہے، جو عام صارفین کے لیے مشکلات پیدا کرے گی۔
صنعت کی بقا کے لیے اقدامات
وحید احمد نے کہا کہ اگر کینو کی تین سے چار نئی ورائٹیز پر کام نہ کیا گیا، تو نہ صرف 300 ارب روپے کی سرمایہ کاری داؤ پر لگ جائے گی بلکہ اس صنعت سے وابستہ تین لاکھ افراد بھی روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔
حل
کینو کی صنعت کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر فوری اقدامات کیے جائیں۔ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے ذریعے نئی ورائٹیز متعارف کروائی جائیں، اور برآمدات کے سیزن کو تین ماہ سے بڑھا کر چھ سے آٹھ ماہ تک لایا جائے۔