کراچی, 28 ستمبر 2023: کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن نے کراچی سے تعلق رکھنے والے سولر کے ایک درآمد کنندہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے ۔ درآمد کنندہپر الزام ہے کہ الیکٹرانک طور پر غلط اور جعلی درآمدی دستاویزات درج کرکے اور الیکٹرانک امپورٹ فارمز کا دوبارہ استعمال کرکے مالی فراڈ کا مرتکب ہوا ہے۔ ان قیمتوں سے کم قیمتیں جن پر سامان پاکستان کو برآمد کرنے کے لیے فروخت کیا گیا تھا اس کے ساتھ ساتھ اضافی زرمبادلہ کو غیر قانونی بینکنگ چینل کے ذریعے بیرون ملک منتقل کیا جو کہ منی لانڈرنگ کے ذمرے میں آتا ہے
سولر کے ایک درآمد کنندہ میسرز ایس این انٹرنیشنل کے فرحان رائق نے چین سے کسٹمز اپریزمنٹ ایسٹ، ویسٹ اور ایس اے پی ٹی کے مختلف کلکٹریٹس میں مختلف واٹ کے سولر پینلز کی 35 کھیپیں درآمد کیں۔ درآمد کنندہ نے امپورٹڈ کنسائنمنٹس کی انڈر انوائسنگ کے ذریعہ لاگت کو غلط بیان کیا تھا اور اپنی سامان کو "حصوں” میں ظاہر کیا تاکہ جان بوجھ کر کسٹم ویلیویشن کے تحت ویلیویشن سے بچ سکیں۔
https://urdu.thebizupdate.com/archives/906
درآمد کنندہ نے کنسائنمنٹس کوریلیزکروانے کے لیے ایک ہی الیکٹرانک امپورٹ فارم کا تین مختلف باراستعمال کیا تھا، جوکہ کسٹم کے مروجہ عمل اور طریقہ کار کے خلاف ہے، قانون نے مطابق ایک اللیکٹرانگ رسید ایک ہی کنسائمنٹ کی ریلیز کے لئے استعمال ہو سکتی ہے ۔ درآمد کنندہ نے اصل انوائسز اور پیکنگ لسٹیں چھپائی تھیں اور اس کے بجائے جعلی اور من گھڑت رسیدیں اور پیکنگ لسٹیں اپ لوڈ کی تھیں، جس میں بہت سولر کی ویلیو بہت کم دکھائی گئیں تھیں ۔
تینوں الیکٹرانک رسیدوں کی منظور شدہ ویلیو 156,259 تھی لیکن امپورٹر نے 2,861,582 ڈالر ویلیوپر 35 کنسائنمنٹس کو کلیئر کیا تھا ۔ اسطرح کمپنی نے 2,705,323 ڈالر کی اضآفی ویلیو ظاہر کی اور یہ رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے غیر قانونی ذرائع سے بیرون ملک بھجوائی۔
ڈائریکٹر آئی اینڈ آئی نے ہائی پروفائل آفیسر الیاس گھچکی کو کیس کا آئی او مقرر کیا ہے۔قومی خزانے کو دھوکہ دینے کے لیے درآمد کنندگان کی جانب سے کے دوبارہ استعمال کے بارے میں ڈائریکٹر انجینئر حبیب احمد کے ذریعے ایڈیشنل ڈائریکٹر افضال احمد وٹو کو معلومات بھیجی گئیں۔ ڈپٹی ڈائریکٹر رئیسہ کنول نے کیس کی پیروی کے لیے اپریزنگ آفیسر توصیف احمد کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دی۔