اسلام آباد، 10 دسمبر2024 : امن اور انصاف کی راہ میں درپیش مشکلات عموماً مذہب کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کے پیروکاروں کے غلط طرز عمل اور تشریحات کے سبب ہوتی ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت کے جج، جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں منعقدہ بین الاقوامی سیمینار کے اختتامی سیشن میں یہ خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب لوگ اپنے ذاتی یا سیاسی مفاد کے لیے مذہب کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں، تو اس سے دنیا بھر میں تنازعات اور عدم اتفاق پیدا ہوتا ہے۔
مذہب کا اصل مقصد: اتحاد اور امن
جسٹس انور نے اس بات پر زور دیا کہ مذہب کا مقصد انسانوں کے درمیان محبت، امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے، لیکن اس کا غلط استعمال اکثر مسائل کو جنم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں امن اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے، اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مذہب کے اصل پیغامات کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہب کی صحیح تفہیم اور اس پر عمل پیرا ہونے سے ہم عالمی سطح پر ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں۔
پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق
پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے، اور یہ انفرادیت پاکستان کو دیگر ممالک سے مختلف بناتی ہے۔ جسٹس انور نے کہا کہ پاکستانی آئین اقلیتوں کو مذہبی آزادی کی بنیاد پر تسلیم کرتا ہے، نہ کہ رنگ، نسل یا عقیدے کی بنیاد پر۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ یہ نظریہ ہمیشہ مکمل طور پر عمل میں نہیں آ پاتا۔ انہوں نے اس کا حل مذہب کی اصل تعلیمات کی ترویج میں تلاش کیا، تاکہ برابری اور انصاف کے اصول حقیقی طور پر نافذ ہو سکیں۔
سیکولر ریاستوں کا چیلنج
سیمینار میں شریک اسپیکرز نے سیکولر اور مذہبی ریاستوں میں اقلیتوں کے تجربات پر روشنی ڈالی۔ خالد رحمٰن نے کہا کہ اکثر سیکولر ریاستوں میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس کے برعکس، مذہبی ریاستوں میں بھی بعض اوقات اقلیتی حقوق نظرانداز کیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ مذہبی برادریوں کو اپنے پیغامات کو پھیلانے اور باہمی احترام کے اصولوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
طاقتور اشرافیہ اور اس کے اثرات
خالد رحمٰن نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ موجودہ عالمی بیانیہ اور سیاسی ڈھانچے اکثر ایسی طاقتور اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جو موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب سے جڑے مسائل کی اصل جڑیں حکومتی نظاموں اور فیصلہ سازی کے عمل میں پوشیدہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں جو عالمی مسائل اور تنازعات ہیں، وہ مذہب کی تعلیمات سے نہیں، بلکہ ان سیاسی، اقتصادی اور سماجی مفادات سے پیدا ہوتے ہیں جو طاقتور افراد کی جانب سے نافذ کیے جاتے ہیں۔
مذہب اور اس کا اخلاقی کردار
سابق سفیر سید ابرار حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگرچہ دنیا کے بہت سے حصوں میں سیکولرازم غالب آ چکا ہے، لیکن مذہب اب بھی انسانیت کے لیے ایک اخلاقی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاہب شمولیت، ہمدردی اور بقائے باہمی کو فروغ دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مذہبی برادریوں کو اپنے اندر خود احتسابی لانی چاہیے تاکہ تشدد اور تعصب کے خلاف متحد ہو کر کام کیا جا سکے۔
تشدد اور تعصب کے خلاف اجتماعی ذمہ داری
آخر میں ڈاکٹر محی الدین ہاشمی نے اپنے خطاب میں اجتماعی ذمہ داری پر زور دیا۔ انہوں نے مذہبی رہنماؤں اور اقلیتی برادریوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے عقائد کی اصل تعلیمات کے ذریعے تشدد اور تعصب کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے تمام مذاہب کے پیروکاروں سے درخواست کی کہ وہ اپنے عقائد کی اصل روح کو اپنائیں اور معاشرے میں امن و رواداری کے فروغ کے لیے مشترکہ طور پر کام کریں۔
نتیجہ:
اس سیمینار کا مقصد یہ تھا کہ دنیا میں امن اور انصاف کے اصولوں کو فروغ دینے کے لیے ہمیں مذہب کی اصل روح کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔ مذاہب کے پیغامات میں انسانیت کی بہتری کا راز چھپا ہے، لیکن اس کے غلط استعمال سے دنیا بھر میں چیلنجز جنم لیتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے عقائد کو صحیح طریقے سے سمجھیں اور ان کا عملی مظاہرہ کریں۔