اسلام آباد: 25 ستمبر 2023ء
نگران صوبائی وزیر برائے ریوینیو اور صنعت و تجارت سندھ محم یونس ڈاگھا نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے کی گئی انکوائری میں بینک فارن ایکسچینج کے غیر قانونی کام میں ملوث پائے گئے ہیں۔
گذشتہ روز عالمی بنک اور پائڈ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقدہ کانفرنس میں بطور چیئرمین ایف پی سی سی آئی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے انہوں نے کہ زرمبادلہ کی قیمتیں مقرر کرنے کا کام چند ایکسچینج کمپنیوں کے ہاتھوں میں دینے کی آئی ایم ایف کی شرط انتہائی غیر دانشمندانہ ہے۔’ درآمدات کا موثر متبادل ‘صنعتی پالیسی کا لازمی حصہ ہونا چاہئے جس کا بنیاد ی فوکس بر آمدات کی بنیاد پر نمو کا حصول ہو۔ بلند نمو کے حصول لیے چھوٹے اور درمیانے کاروبار (SMEs) کو بڑا کردار دیا جانا ضروری ہے۔ بلند نمو کی حکمت عملی کے لئے ہنر مند نوجوان ، اعلیٰ پیداواری صلاحیت اور زراعت ، کان کنی، معدنی وسائل کی قدر میں اضافے (ویلیو ایڈیشن) پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
ان خیالات کا اظہار محمد یونس ڈاگھا نے اسلام آباد میں عالمی بینک کی جانب سے حکومت پاکستان کے لیے تیار کیے جانے والے پالیسی ریفارمز پیپر کے مسودے پر تبادلہ خیال اور اسے حتمی شکل دینے کے لیے منعقدہ کانفرنس بعنوان "ایک روشن مستقبل کے لیے اصلاحات: فیصلہ کرنے کا وقت”- سے خطاب کے دوران کیا ۔
سیمینار میں مختلف شعبوں کی نمائندگی کرنے والے اسٹیک ہولڈرز کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ سیمینار کو مختلف سیشنز میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر سیشن میں کسی ایک موضوع پر پینل ڈسکشن اور پھر سامعین کے ساتھ سوال و جواب کا سیشن ہوا۔اس موقع پر محمد یونس ڈاگھا کو سیمینار میں بطور چیئرمین، ایف پی سی سی آئی، پالیسی ایڈوائزری بورڈ شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا ۔
سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے پر گفتگو کرتے ہوئے محمد یونس ڈاگھانے کہا کہ سرمایہ کاری ایسے ماحولیاتی نظام میں راغب ہوتی ہے جہاں سرمایہ کاری کے لئے جامع پالیسی کے ساتھ ساتھ صنعتی اور ٹیرف پالیسیوں کا طویل المیعاد تسلسل اور سیاسی استحکام موجود ہو۔ اس طرح کے پالیسی فریم ورک کو ترجیحی شعبوں میں مقامی سرمایہ کاروں کی شمولیت سے جانچا جائے گا جس میں اعلیٰ پیداواری زراعت، مشینی کان کنی ، قدر میں اضافہ (ویلیو ایڈیشن) اور انسانی وسائل کی ترقی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی پالیسیوں میں چھوٹے اور درمیانے کاروبار (SMEs)کو نظر انداز کرکے ترقی حاصل نہیں کی جا سکتی۔
یونس ڈاگھا نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ‘درآمدی متبادل’کو پاکستان جیسی جدوجہد کرنے والی معیشت کے لیے "برے لفظ” کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے جس کی صنعتی بنیاد اور مارکیٹ تک رسائی بہت محدود ہے، جب کہ اس کے حریفوں نے ایک مضبوط صنعتی بنیاد تیار کرنے کے بعد اپنی معیشتوں کو کھول دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک پاکستان ایک معقول صنعتی بنیاد تیار نہیں کر لیتا اور ان منڈیوں تک رسائی حاصل نہیں کر لیتا جہاں اس کے تجارتی حریفوں کے آزاد تجارتی معاہدے موجود ہیں،اس وقت تک یکطرفہ تجارتی لبرلائزیشن کی طرف جانا فضول ہوگا۔ انہوں نے اس دور کو یاد کیا جب پاکستان کے پالیسی سازوں نے 2002 سے 2009 کے درمیان اوسط کسٹم ٹیرف کو 18 فیصد سے کم کر کے 8 فیصد کردیا تو ہم نے دیکھا کہ تجارتی خسارے کے مسئلے نے معیشت کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کہ پالیسی کی بڑی توجہ برآمدات کی بنیاد پر حاصل ہونے والی نمو پر ہے اس وقت تک محدود مدت کے لئے چند اہم شعبوں جیسے آئل ریفائننگ، پیٹرو کیمیکلز، اسٹیل سازی، انجینئرنگ وغیرہ کے لیے محدود تحفظ کی اجازت دی جانی چاہیے ۔ تاہم، انہوں نے اتفاق کیا کہ عام پالیسی کے طور پر درآمدی متبادل کی حمایت نہیں کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دفتر خارجہ اور وزارت تجارت کو برآمد کنندگان کے لیے مارکیٹ تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے تجارتی معاہدوں پر گفت و شنید اور حتمی شکل دینے کے لیے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
فارن ایکسچینج کی قیمتوں کے تعین کی پالیسی پر گفتگو کے دوران، محمد یونس ڈاگھا نے کہا کہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے لیے کوئی پرفیکٹ مارکیٹ نہیں ہے جہاں مسابقتی مارکیٹ کی سرگرمیوں کے ذریعے ایف ایکس (FX)کی قیمتوں کا تعین مؤثر طریقے سے کیا جا سکے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے کی گئی انکوائریوں میں وہ چند بینک جو انٹربینک ریٹس کا انتظام کرتے ہیں، ناجائز طریقوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اوپن مارکیٹ ریٹس کا انتظام چند فارن ایکسچینج ڈیلر کرتے ہیں جن میں سے اکثر حوالہ ڈیلرز کے فرنٹ آفس ہیں۔ ایسے حالات میں IMF کی جانب سے FX قیمتوں کو ڈیلرز کے ہاتھ میں دینے کی شرط انتہائی نادانی ہے۔ مسٹر ڈاگھا نے تجویز پیش کی کہ اسٹیٹ بینک پاکستانی روپے کی عالمی طور پر قبول شدہ حقیقی مؤثر شرح تبادلہ کے مطابق وقتاً فوقتاً شرح مبادلہ طے کرے۔
ہینڈ آؤٹ